محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
سرکاری ملازم کا ڈیوٹی ادا کیے بغیر تنخواہ لینا مسئلہ(۴۷۴): سرکاری ملازم اجیرِ خاص کے درجے میں ہوتا ہے، لہٰذا باقاعدگی کے ساتھ ڈیوٹی ادا کرنے پر تنخواہ و اجرت کا مستحق ہوگا، اور ڈیوٹی ادا نہ کرنے پر تنخواہ لینا جائز نہیں ہے۔(۱) ------------------------------ =یترک الإمامۃ لزیارۃ أقربائہ في الرساتیق أسبوعاً أو نحوہ لمصیبۃ أو لاستراحۃ لا بأس بہ ، ومثلہ عفو في العادۃ والشرع ، وہذا مبنی علی القول بأن خروجہ أقل من خمسۃ عشر یوماً بلا عذر شرعي لا یسقط معلومہ ، وقد ذکر فی الأشباہ والنظائر في قاعدۃ : ’’ العادۃ محکمۃ‘‘ ۔ عبارۃ القنیۃ ہذہ ، وحملہا علی أنہ یسامح أسبوعاً في کل شہر ، واعترضہ بعض محشیہ بأن قولہ فی کل شہر لیس في عبارۃ القنیۃ ما یدل علیہ ، قلت : والأظہر ما في آخر شرح منیۃ المصلي للحلبي أن الظاہر أن المراد في کل سنۃ ۔ (۶/۶۳۰، کتاب الوقف ، مطلب فیما إذا قبض المعلوم وغاب قبل تمام السنۃ ، الأشباہ والنظائر لإبن نجیم :۱/۳۳۷) ما في ’’ درر الحکام شرح مجلۃ الأحکام ‘‘ : ’’ المعروف عرفًا کالمشروط شرطاً ‘‘ ۔ (۱/۵۱ ، المادۃ:۴۳ ، شرح القواعد الفقہیۃ :ص/۲۳۷) (۳) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن عمرو بن عوف المزني ، عن أبیہ ، عن جدہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قال : ’’المسلمون علی شروطہم إلا شرطاً حرم حلالاً أو أحل حراماً ‘‘ ۔ (۱/۲۵۱ ، کتاب البیوع ، أبواب الأحکام) (فتاوی دارالعلوم: ۳/۸۷،۸۸، کتاب الفتاوی: ۲/۳۱۳،۳۱۴) ما في ’’ جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ المسلمون عند شروطہم ‘‘ ۔ (۱/۱۷۲) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والثاني وہوالأجیر الخاص ویسمی أجیر وحد وہو من یعمل لواحدٍ عملاً موقتاً بالتخصیص ویستحق الأجر بتسلیم نفسہ في المدۃ وإن لم یعمل کمن استؤجر شہراً للخدمۃ أو شہراً لرعي الغنم المسمی بأجر مسمی ۔۔۔۔ ولیس للخاص أن یعمل لغیرہ ، ولو عمل نقص من أجرتہ بقدر ما عمل ۔۔۔۔۔ وإن لم یعمل أي إذا تمکن من العمل فلو سلم نفسہ ولم یتمکن منہ لعذر کمطر ونحوہ لا أجر لہ ۔ =