محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
موجودہ کمپنیوں کی شرعی حیثیت مسئلہ(۳۷۱): موجودہ کمپنیاں شرکت کی پانچویں قسم یعنی شرکت العنان میں داخل ہیں، کیوں کہ عامۃً موجودہ کمپنیوں میں دو یا زیادہ افراد اس طرح شریک ہوتے ہیں کہ ہر ایک کا سرمایہ، عمل، حقوق ونفع مساوی نہیں ہوتا، بلکہ اس میں ہر شریک دوسرے کا صرف وکیل ہوتا ہے، کفیل نہیں ہوتا، مثال کے طور پر اگر زید اور عمر مل کر شرکت کریں، اور زید ایک ہزار روپئے کا سرمایہ لگائے اور عمر ڈیڑھ ہزار روپئے کا سرمایہ لگائے، اور منافع بھی اسی تناسب سے طے کرلیں، تو یہ شرکت عنان کہلائے گی، جو شرعاً جائز ہے۔(۱) ------------------------------ = وکنت شریکي وکنت خیر شریک لا تداری ولا تماری أی لا تداجی ولا تخاصم ، وبعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والناس یفعلون ذلک فأقرہم علیہ ، وقد تعاملہ الناس من بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی یومنا ہذا من غیر نکیر ۔ (۱۱/۱۶۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : والمسلمون أجمعوا علی جواز الشرکۃ في الجملۃ ۔ (۵/۳۸۷۷ ، مشروعیۃ الشرکۃ) ما في ’’ فتاوی النوازل ‘‘ : وہي جائزۃ لأن النبي ﷺ بعث والناس یتعاملون بہا ، فقررہ النبي ﷺ ۔ (ص/۳۱۶ ، کتاب الشرکۃ) (شرکت ومضاربت عصر حاضر میں :ص/۱۳۱) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : شرکۃ العقود : ہي عبارۃ عن العقد الواقع بین اثنین فأکثر للاشتراک في مال وربحہ ، وہو تعریف الحنفیۃ السابق ۔ وہي أنواع خمسۃ عند الحنابلۃ : شرکۃ العنان وشرکۃ المفاوضۃ وشرکۃ الأبدان ، وشرکۃ الوجوہ والمضاربۃ ، وقسمہا الحنفیۃ إلی ستۃ أنواع : وہي شرکۃ الأموال وشرکۃ الأعمال وشرکۃ الوجوہ ، وکل نوع من ہذہ الأنواع إما مفاوضۃ وإما عنان ۔۔۔۔۔۔۔ واتفق العلماء علی أن شرکۃ العنان جائزۃ صحیحۃ ۔ (۵/۳۸۷۸ ، الفصل الخامس ؛ الشرکات) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما الکلام في الشرکۃ بالأموال ، فأما العنان فجائز بإجماع=