محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قرض وصول کر کے مضاربت میں لگانا مسئلہ(۴۰۶): رب المال کا کسی آدمی کے ذمہ قرض ہو، اور وہ مضارب کو اجازت دیدے کہ آپ اس قرض کو وصول کرکے اس کے ذریعہ مضاربت کرو، تو یہ صورت شرعاً درست ہوگی۔(۱)سامان میں عقد مضاربت مسئلہ(۴۰۷): عقد مضاربت میں سرمایہ کا نقد ہونا شرط ہے، سامان کے ذریعہ عقد مضاربت درست نہ ہوگا۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وأما المضاربۃ بدین فإن علی المضارب لم یجز وإن علی ثالث جاز ۔ (۸/۳۷۶ ، کتاب المضاربۃ) (فتاوی حقانیہ : ۶/۳۴۶) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولو کان الدین علی ثالث فقال لہ : اقبض مالي علی فلان فاعمل بہ مضاربۃ جاز ۔ کذا في الکافي ۔ (۴/۲۸۶ ، الباب الأول في تفسیرہا ورکنہا وشرائطہا وحکمہا) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : إذا قال لہ : اقبض مالي علی فلان واعمل بہ مضاربۃ جاز بخلاف ما إذا قال : اعمل بالدین الذي في ذمتک حیث لا تصح المضاربۃ ۔ (۳/۲۵۸، کتاب المضاربۃ) الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وشرطہا أمور سبعۃ : کون رأس المال من الأثمان ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : من الأثمان ، أی الدراہم والدنانیر ۔ (۸/۳۷۵ ، کتاب المضاربۃ) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : ما یتعلق برأس مال المضاربۃ من الشروط یشترط لصحۃ المضاربۃ شروط یلزم تحققہا في رأس المال ، وہي أن یکون نقدًا من الدراہم والدنانیر وأن یکون معلومًا وأن یکون عینًا لا دینًا ۔ أولاً : کون رأس المال من الدراہم والدنانیر ، اتفق الفقہاء في الجملۃ علی ہذا الشرط واستدل بعضہم علیہ بالإجماع کما نقلہ الجوني من=