محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ایکسیڈنٹ میں موت ہونے پر معاوضہ مسئلہ(۳۶۹): اگر کسی شخص کا سرکاری بس سے ایکسیڈنٹ ہوگیا، اورو ہ شخص جائے حادثہ پر ہی فوت ہوگیا، تو اس کے اہل خانہ کے لیے ڈرائیور کے خلاف مقدمہ دائر کرنا ، اور حکومت سے معاوضہ لینا دونوں درست ہیں،اور معاف کردینا بہتر ہے(۱)، اس لیے کہ یہ حادثہ بہت سے بہت قتلِ خطا میں آسکتا ہے ، اور قتلِ خطا میں قصاص یا قتل نہیں ہوتا(۲)، صرف دیت لازم آسکتی ہے، اور دیت میں ذمی مستامن ومسلم سب برابر ہیں(۳)، اور دیت میں صرف مال عوض میں لے سکتے ہیں، سزائے جسمانی کرانا درست نہیں، اور حق دارِ میت کو دیت کے معاف کرنے کا حق بھی ہوتا ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۱) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : أما شرائط المکفول بہ ، فالأول أن یکون مضموناً علی الأصل دیناً أو عیناً أو فعلاً ، ولکن یشترط في العین أن تکون مضمونۃ لنفسہا ۔ (۶/۳۴۵ ، کتاب الکفالۃ ، بدائع الصنائع : ۴/۶۰۷ ، کتاب الکفالۃ ، شرائط الکفالۃ ، ما یرجع إلی المکفول بہ ، کذا في رد المحتار : ۷/۴۳۲ ، کتاب الکفالۃ) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : کفالۃ بالأعیان وہي نوعان : کفالۃ بأعیان مضمونۃ ، فتصح الکفالۃ بہا ۔ (۵/۲۱ ، کتاب الکفالۃ) (۲) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وشرطہا (الودیعۃ) کون المال قابلاً لإثبات الید علیہ ، وکون المودع مکلفاً شرط لوجوب الحفظ علیہ (وہي أمانۃ فلا تضمن بالہلاک) إلا إذا کانت الودیعۃ بأجرٍ ۔ ’’أشباہ ‘‘ ۔ معزیاً للزیلعي (مطلقاً) سواء أمکن التحرز أم لا ۔ (۸/۳۹۵ ، کتاب الإیداع) ما في ’’ الأشباہ والنظائر لإبن نجیم ‘‘ : وذکر الزیلعي أن الودیعۃ بأجر مضمونۃ ۔ (۲/۲۳۵ ، کتاب الأمانات)=