محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
صاحبِ نصاب شیئر ہولڈر کے سرمایہ سے زکوۃ مسئلہ(۷۶): ائمہ ثلاثہ (امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ) کے نزدیک خلطۃ الشیوع (مشترکہ ملکیت) شخصِ قانونی کے درجہ میں ہے، چنانچہ اگر کئی افراد کی مشترکہ ملکیت میں قابلِ زکوۃ بقدرِ نصاب مال ہو، تو مجموعی طور پر اس مال میں زکوۃ واجب ہوگی، البتہ امام مالک اور امام احمد بن حنبل خلطۃ الشیوع کا اعتبار صرف مویشیوں (چرنے والے جانوروں)میں کرتے ہیں، جب کہ امام شافعی تمام قابلِ زکوۃ اموال میں معتبر مانتے ہیں، یعنی فقہ شافعی کے مطابق ہر کمپنی پر بحیثیتِ کمپنی زکوۃ واجب ہوگی، اور احناف خلطۃ الشیوع (مشترکہ ملکیت) کو شخصِ قانونی نہیں مانتے، لہٰذا ان کے نزدیک کمپنی پر بہ حیثیتِ شخصِ قانونی زکوۃ واجب نہیں ہوگی، بلکہ جو شیئر ہولڈر بھی انفرادی طور پر صاحبِ نصاب بن جائے اس پر زکوۃ لازم ہوگی،یہی مسلک بر صغیر کے علماء کرام اور موجودہ دور کے بہت سے علماء عرب کا ہے، البتہ یہ حضرات فرماتے ہیں کہ زکوۃ اگر چہ شیئر ہولڈر پر واجب ہوتی ہے، لیکن اگر کسی کمپنی کے کیفیت نامہ (Prospectus) یا اس کے سالانہ عمومی اجلاس (A.G.M.) میں، یا اس ملک کے قانون میں یہ بات طے کی گئی ہو کہ کمپنی صاحبِ نصاب شیئر ہولڈر کے سرمایہ سے ہر سال زکوۃ نکال دے گی، تو کمپنی شیئر ہولڈرز کی طرف سے زکوۃ ادا کرسکتی ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : یزکي رب المال (المالک) رأس المال وحصتہ من الربح ، ویزکي العامل حصتہ من الربح ، ۔۔۔۔ قال أبوحنیفۃ : یزکي کل واحد من المالک والعامل بحسب حظہ أو نصیبہ کل سنۃ ، ولا یؤخر إلی المفاصلۃ ، أی التصفیۃ ۔ =