محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
آدھی آستین والے قمیص میں نماز مسئلہ(۴۸): اگر کسی عورت نے آدھی آستین والا قمیص پہنا ہو، تو اسے چاہیے کہ نماز کے وقت اُس قمیص کے اوپر ایسی کوئی چادر یا اوڑھنی اوڑھ لے، جس سے پورا بدن چھپ جائے، تاکہ نماز درست ہوجائے ، اگر اس نے ایسا نہیں کیا، تو نماز درست نہیں ہوگی، کیوں کہ عورت کے لیے نماز میں؛چہرہ، دونوں ہتھیلیوں اور قدموں کے علاوہ ، پورے بدن کا چھپانا فرض ہے۔ (۱) ------------------------------ =ما في ’’ حاشیۃ الطحطاوي ‘‘ : ویجب ضم الأنف أي ما صلب منہ للجبہۃ في السجود للمواظبۃ علیہ ، ولا تجوز الصلاۃ بالاقتصار علی الأنف في السجود علی الصحیح ۔ (ص/۲۴۹ ، فصل في بیان واجب الصلاۃ) ما في ’’ التصحیح والترجیح ‘‘ : وسجد واعتمد بیدہ علی الأرض ووضع وجہہ بین کفیہ وسجد علی أنفہ وجبہتہ ، فإن اقتصر علی أحدہما جاز عند أبي حنیفۃ ، وقال أبویوسف ومحمد : لا یجوز الاقتصار علی الأنف ، وقال في العون : روي عنہ مثل قولہما ، وعلیہ الفتوی ، وقال في ملتقی البحار : وقد روی أسد عن أبي حنیفۃ أن الاقتصار علی الأنف لا یجوز ، وہو المختار للفتوی ، واعتمدہ المحبوبي وصدر الشریعۃ ۔ (ص/۱۶۱ ، ۱۶۲ ، في صفۃ الصلاۃ) (احسن الفتاوی :۳/۲۱) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وللحرۃ جمیع بدنہا ، حتی شعر النازل في الأصح ، خلا الوجہ والکفین والقدمین ۔ (۲/۷۱ ، الصلاۃ ، شروط الصلاۃ ، مطلب في ستر العورۃ) ما في ’’ کنز الدقائق مع البحر الرائق ‘‘ : وبدن الحرۃ عورۃ إلا وجہہا وکفیہا وقدمیہا ۔ (۱/۴۶۸ ، کتاب الصلاۃ ، باب شروط الصلاۃ) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ :عن أم سلمۃ أنہا سألت النبي ﷺ : أتصلي المرأۃ في درع وخمار ولیس علیہا إزار؟ فقال : ’’ إذا کان الدرع سابغا یغطي ظہور قدمیہا ‘‘ ۔=