محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مہر میں نقد روپیوں کی بجائے کپڑے یازیورات مسئلہ(۱۶۹): اگر کوئی شخص مہر کی ادائیگی میں نقد روپیوں پیسوں کی بجائے کپڑے یا زیورات وغیرہ دیتا ہے، تو اس سے بھی مہر ادا ہوجائے گا(۱)، بشرطیکہ یہ کپڑے اور زیورات وغیرہ مقرر کردہ مہر کی مالیت کے برابر ہوں۔(۲) ------------------------------ =رشوۃ ۔ در مختار ۔ وفي الشامیۃ : قولہ : (عند التسلیم) أی بأن أبی أن یسلمہا أخوہا أو نحوہ حتی یأخذ شیئًا ، وکذا لو أبی أن یزوجہا فللزوج الاسترداد قائمًا أو ہالکًا لأنہ رشوۃ ۔ بزازیہ۔(۴/۲۲۷، کتاب النکاح ، مطلب أنفق علی معتدۃ الغیر، الفتاوی الہندیۃ :۱/۳۲۷ ، کتاب النکاح ، الباب السابع في المہر ، الفصل السادس عشر، البحر الرائق :۳/۳۲۵ ، کتاب النکاح ، باب المہر) (فتاوی رحیمیہ : ۸/۲۳۳،۲۳۴، کراچی، کفایت المفتی : ۵/۱۰۹، کراچی) (۳) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وفي ’’ القنیۃ ‘‘ : الرشوۃ یجب ردّہا ولا تملک ۔ (۸/۳۳ ، کتاب القضاء ، مطلب فی الکلام علی الرشوۃ والہدیۃ) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {وأحل لکم ما ورآء ذٰلکم أن تبتغوا بأموالکم} ۔ (سورۃ النساء :۲۴) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : المہر ہو کل مال متقوم معلوم مقدور علی تسلیمہ ، فیصح کون المہر ذہبًا أو فضًا ، مضروبۃ أو سبیکۃ ، أي نقدًا أو حلیًا ونحوہ ، دینًا أو عینًا ، ویصح کونہ فلوسًا أوأوراقًا نقدیۃ ، مکیلا أو موزونًا ، حیوانًا أو عقارًا ، أو عروضًا تجاریۃ کالثیاب وغیرہا ۔ (۹/۶۷۶۸، الفصل السادس ، آثار الزواج ، المبحث الأول ، ثالثًا : شروط المہر أو ما یصلح أن یکون مہراً وما لا یصلح) (الفتاوی التاتارخانیۃ :۲/۳۲۷ ، الفصل السابع عشر في المہر) (۲) ما في ’’ السنن الکبری للبیہقي ‘‘ : عن الشعبي ، عن علي رضي اللہ عنہ : ’’ لا مہر أقلَّ من عشرۃ دراہم ‘‘ ۔ (۷/۲۴۰ ، باب ما یجوز أن یکون مہرًا ، مجلس دائرۃ المعارف النظامیۃ=