محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
لفظ ’’ڈائی ورس‘‘ (Divorce) سے طلاق مسئلہ(۱۸۴): اگر لفظ ’’ڈائی ورس‘‘ (Divorce)کسی علاقہ کی زبان میں طلاق ہی کے لیے مستعمل ہے، تواگرچہ یہ لفظ عربی کا نہیں ہے ، انگریزی کا ہے، مگر جب وہ طلاق ہی کے لیے مستعمل ہے ، تو وہ صریح ہے، اور اس سے بلانیت طلاق واقع ہوجائے گی، ایک مرتبہ کہنے سے ایک طلاق رجعی ، دو مرتبہ کہنے سے دو طلاق رجعی ، اور تین مرتبہ کہنے سے تین طلاقیں واقع ہوجائیں گی، اور عورت مغلظہ بائنہ ہوجائے گی، اور اگر یہ لفظ طلاق کے علاوہ کسی اور معنیٰ میں بھی مستعمل ہے، تو اس سے طلاق کے واقع ہونے کے لیے نیت کا ہونا ضروری ہے، طلاق کی نیت ہوگی تو ایک طلاق بائن واقع ہوگی،اور اگر تین طلاقوں کی نیت کرے گا، تو تینوں واقع ہوجائیں گی۔ لفظ ’’ڈائی ورس‘‘ اصل میں کنایہ ہے، طلاق کے لیے موضوع نہیں ہے، لیکن اگر طلاق میں غلبۂ استعمال سے صریح کے حکم میں ہوجائے، تو نیت کا محتاج نہیں ہے، بلا نیت، طلاقِ بائن واقع ہوجائیگی، اگر بائن متعارف ہو، جس طرح لفظ ’’فارغ خطی ‘‘ ------------------------------ =(۳) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {فإذا بلغن أجلہنّ فلا جناح علیکم فیما فعلن في أنفسہنّ بالمعروف ، واللہ بما تعملون خبیر} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۳۴) ما في ’’ أحکام القرآن لإبن العربي ‘‘ :{فإذا بلغن أجلہنّ} یعنی انقضت العدۃ فلا جناح علیکم فیما فعلن في أنفسہنّ ، ہذا خطاب للأولیاء ، وبیان أن الحق فی التزویج لہن فیما فعلن في أنفسہن بالمعروف أي من جائز شرعاً یرید من اختیار أعیان الأزواج ۔ (۱/۲۱۲) (فتاوی مفتی محمود :۶/۷۹،۸۰)