محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
خود رو گھاس کی خرید وفروخت مسئلہ(۲۴۷): بعض علاقوں میں گھاس اور پانی کی قلت ہوجاتی ہے، تو اس علاقے کے لوگ اپنے مویشی(بکریاں، بھیڑ وغیرہ) لے کر زرخیز اور سر سبز وشاداب علاقوں میں جاتے ہیں، اور پہاڑ یا کسی کی مملوکہ زمین پر پڑاؤ ڈال دیتے ہیں، تاکہ اپنے مویشیوں کو چرائیں، اس زمین کے مالکان یا گاؤں والے ان سے خود رو گھاس کی رقم وصول کرتے ہیں، تو اس سلسلے میں شرعی نقطۂ نظر یہ ہے کہ اگر وہ گھاس کسی کی زمین میں از خود اُگی، نہ اس نے اسے لگایااور نہ سینچا ، تو یہ گھاس اس کی ملک نہیں ہے، اس لیے اُس کا بیچنا اور اسے کاٹنے سے منع کرنا اس کے لیے درست نہیں ،جس کا جی چاہے کاٹ لے جاوے(۱)، البتہ اگر اس نے پانی دے کر سینچا اور خدمت کیا ہو، تو یہ گھاس اُس کی ملک ہوجائے گی، اس لیے اُس کا بیچنا، اور لوگوں کو کاٹنے سے منع کرنا درست ہوگا۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ السنن الکبری للبیہقي ‘‘ : عن ثور بن یزید یرفعہ إلی النبي ﷺ قال : ’’المسلمون شرکاء في الکلأ والماء والنار ‘‘ ۔ (۶/۲۴۸، رقم الحدیث :۱۱۸۳۳، کتاب إحیاء الموات) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (والمراعی) أی الکلأ (وإجارتہا) أما بطلان بیعہا فلعدم الملک لحدیث : ’’ الناس شرکاء فی ثلاث : في الماء والکلأ والنار ‘‘ ۔ وأما بطلان إجارتہا فلأنہا علی استہلاک عین ۔ ابن کمال ۔ (در مختار) ۔ (۷/۲۵۶ ، ۲۵۷ ، کتاب البیوع ، باب البیع الفاسد ، بیروت)=