محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قرض کی جگہ چیک جاری کرنا مسئلہ(۴۹۲): چیک کی شرعی حیثیت سند وحوالہ کی ہے، اوریہ حوالہ اس وقت صحیح ہوگا جب محال علیہ( بینک) اس کو قبول کرے، اور حاملِ چیک کو چیک میں مکتوب رقم نقد ادا کردے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ فقہ وفتاوی البیوع ‘‘ : لا یجوز التعامل بالشیک في بیع الذہب أو الفضۃ ، وذلک لأن الشیکات لیست قبضاً وإنما ہي وثیقۃ حوالۃ فقط ، بدلیل أن الذي أخذ الشیک لو ضاع منہ لرجع علی الذي أعطاہ إیاہ ولو کان قبضاً لم یرجع علیہ ، وبیان ذلک أن الرجل لو اشتری ذہباً بدراہم واستلم البائع الدراہم فضاعت منہ لم یرجع علی المشتري، ولو أنہ أخذ من المشتري شیکاً ثم ذہب بہ لیقبضہ من البنک ثم ضاع منہ فإنہ رجع علی المشتري بالثمن ، وہذا دلیل علی أن الشیک لیس بقبض ، وإذا لم یکن قبضاً لم یصح البیع ۔۔۔۔۔ إلا إذا کان الشیک مصدقاً من قبل البنک واتصل البائع بالبنک وقال : أبق الدراہم عندک ودیعۃ لي ، فہذا قد یرخص فیہ ۔ (ص/۳۹۹ ، مکتبۃ دار ابن رجب) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : أما رکن الحوالۃ : فہو الإیجاب والقبول ، الإیجاب من المحیل والقبول من المحال علیہ والمحال جمیعاً فالإیجاب أن یقول المحیل للطالب : احلتک علی فلان ، ہکذا ، والقبول من المحال علیہ والمحال أن یقول کل واحد منہما قبلت أو رضیت أو نحو ذلک مما یدل علی القبول والرضا وہذا عند أصحابنا ۔ (۷/۴۱۵)