محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ مسئلہ(۴۲۳):کسی شخص نے اپنی زمین کسی کو کرایہ پر دیدی، اور مدتِ کرایہ داری ختم ہوگئی ،یا اصل کرایہ دار کا انتقال ہوگیا، تو شرعاً اسے اپنی زمین خالی کرانے کا حق حاصل ہے (۱)، کرایہ دار یا اس کے ورثاء کا ، کورٹ کے ذریعہ مالکِ زمین کو مزید کرایہ داری کا معاملہ کرنے، یا زمین بیچنے پر مجبورکرنا شرعاً جائز نہیں ہے(۲)، ہاں اگر دوسری جگہ منتقل ہونے میں مشکلات در پیش ہوں، تو مالک زمین کو مزید کرایہ داری کا معاملہ کرنے یا زمین کے بیچنے پر راضی کرلیں(۳)، خواہ کرایہ میں اضافہ کرکے ہو ، یا زمین کی قیمت میں زیادتی کرکے، لیکن اس کے باوجود بھی اگر وہ مزید کرایہ داری کا معاملہ کرنے یا زمین کے بیچنے پر راضی نہ ہو، تو اسے اس پر مجبور نہیں کیا جاسکتا(۴)، البتہ اگر کرایہ دار نے اس زمین پر عمارت بنائی ہے ، تو تعمیر کردہ عمارت کا وہ مالک رہے گا، جس کو توڑ کر اس کے ملبے کو وہاں سے اٹھایا جاسکتا ہے، یا پھر وہ عمارت مالک زمین ہی کو بیچ دے، اور اس کی قیمت میں تعمیرشدہ عمارت کی قیمت کا اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ گری ہوئی ------------------------------ =(۱) ما في ’’ مراسیل أبي داود ‘‘ : عن أبی سعید الخدري رضي اللّٰہ تعالی عنہ : ’’ أن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہﷺ نہی عن استیجار الأجیر حتی یبین لہ أجرہ ‘‘ ۔ (ص/۱۰، باب التجارۃ) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ومنہا (أی من شروط صحۃ العقد) أن تکون الأجرۃ معلومۃ ۔ (۴/۴۱۱ ، کتاب الإجارۃ ، الباب الأول في تفسیر الإجارۃ) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : شرطہا کون الأجرۃ والمنفعۃ معلومتین لأن جہالتہما تفضي إلی المنازعۃ ۔ (۹/۷ ، کتاب الإجارۃ) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۹۳)=