محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
رہن رکھتے وقت قرض کی صراحت مسئلہ(۵۱۳):ایک شخص پر کسی دوسرے شخص کے دو الگ الگ قرض ہیں، اور وہ رہن رکھتے وقت یہ صراحت نہ کرے کہ یہ رہن قرضِ اول کے بدلے ہے ،یا قرضِ ثانی کے بدلے، تو یہ عقدِ رہن شرعاً درست نہیں ہے، کیوں کہ صحتِ عقدِ رہن کے لیے شرط ہے کہ مرہون بہٖ معلوم ہو ؛ یعنی یہ کس قرض کے بدلے ہے؟(۱)اپنے ماتحت کی کوئی چیز اپنے پاس رہن رکھنا مسئلہ(۵۱۴): باپ اپنے بچے، اور وصی یتیم کی کسی چیز کو رہن پر رکھے، تو شرعاً یہ جائز و درست ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : منہا أن یکون محلاً قابلاً للبیع ۔۔۔۔۔ وأن یکون معلوماً ۔ (۸/۱۴۱، کتاب الرہن ، فصل فی تفضیل الشرائط) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : الشرط الثالث : أن یکون الحق المرہون بہ معلوما ، فلا یصح الرہن بحق مجہول، فلو أعطاہ رہناً بأحد دینین لہ ، دون أن یعینہ ، لم یصح الرہن ۔ (۵/۴۲۲۸ ، المطلب الثالث ، شروط المرہون بہ)(مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۷۰) (۲) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : فأما کونہ مملوکاً للراہن فلیس بشرط لجواز الرہن حتی یجوز رہن مال الغیر بغیر إذنہ بولایۃ شرعیۃ ، کالأب والوصي یرہن مال الصبي بدینہ وبدین نفسہ ۔ (۵/۱۹۶، شرائط الرہن) ما في ’’ الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید ‘‘ : وللأب أن یرہن بدین علیہ متاعاً لطفلہ ، لأن لہ إیداعہ ، وہذا أولی لہلاکۃ مضموناً ، ولأن قیام المرتہن بحفظہ أبلغ مخافۃ الغرامۃ ، بینما الودیعۃ أمانۃ وہي غیر مضمونۃ ، والوصي کذلک ، وقال أبو یوسف وزفر : لا یملکان ذلک وقولہما قیاس ، والأول الظاہر وہو الاستحسان ۔ (۴/۴۶۹ ، حکم رہن الأب والوصي مال الصغیر)=