محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
’’ بَری ‘‘ کا مالک کون ؟ مسئلہ(۱۷۸): بوقتِ نکاح دولہے والے ’’بَری‘‘ کے نام سے کچھ سامان مثلاً؛ کھوپرا، کھجور، مصری یا بادام وغیرہ دولہن کے گھر بھیجتے ہیں، وہ ہدیہ ہے، اور لڑکی اس کی مالک ہے۔(۱) ------------------------------ = آوانيَ لیجہزہا بہا ثم مات عن ورثتہ فہل یکون ذلک للبنت خاصۃ ؟ الجواب : نعم ! إذا جہز الأب ابنتہ ثم مات وبقیۃ الورثۃ یطلبون القسم منہا ، فإذا کان الأب اشتری لہا في صغرہا أو بعد ما کبرت وسلم إلیہا ذلک فی صحتہ فلا سبیل لورثتہ علیہ ویکون للإبنۃ خاصۃ ۔ (۱/۲۶ ، مسائل الجہاز ، طبع قندھار پاکستان ، بحوالہ کفایت المفتی: ۵/۱۳۹، مکتبہ دار الاشاعت کراچی) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ومن بعث إلی امرأتہ شیئًا فقالت : ہو ہدیۃ ، وقال الزوج : ہو من المہر ، فالقول قولہ ، لأنہ ہو المملِّک ، فکان اعرف بجہۃ التملیک کیف ، وإن الظاہر أنہ یسعی في اسقاط الواجب ۔ قال : إلا في الطعام الذي یؤکل فإن القول قولہا ، والمراد منہ ما یکون مہیأً للأکل لأنہ یتعارف ہدیۃ ۔ (۱/۳۳۷ ، کتاب النکاح ، باب المہر ، البحر الرائق: ۳/۳۲۱ ، کتاب النکاح ، باب المہر، تبیین الحقائق :۳/۵۸۱ ،۵۸۲ ، باب المہر، فتح القدیر لإبن الہمام :۳/۳۶۰ ، الفتاوی الہندیۃ :۱/۳۲۷) (فتاوی محمودیہ:۱۲/۱۲۱)