محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
سودی رقم نفع کے نام پر وصول کرنا مسئلہ(۳۲۶): بلا ضرورت بینک میں رقم جمع کرنا اور اس پر ملنے والے سود کو نفع کہہ کر وصول کرنا اور اپنے استعمال میں لانا، سراسر ناجائز وحرام ہے، کیوں کہ بینک سے نفع کے نام سے ملنے والی رقم سود ہے، جو بہر حال حرام ہے، اور قرآن وحدیث میں سود کا مال کھانے والوں پر سخت وعیدیں وارد ہوئی ہیں۔(۱) ------------------------------ =ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ :والسبیل في المعاصي ردّہا ، وذلک ہہنا بردّ المأخوذ إن تمکن من ردّہ ، بأن عرف صاحبہ ، وبالتصدق إن لم یعرفہ ، لیصل إلیہ نفع مالہ إن کان لا یصل إلیہ عین مالہ ۔ (۵/۳۴۹ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الخامس عشر في الکسب) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : والواجب في الکسب الخبیث تفریغ الذمۃ منہ إلی أربابہ إن علموا ، وإلا إلی الفقراء ۔ (۳۹/۴۰۷ ، الکسب الناشي عن المیسر) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : الأصل أن المستحق بجہۃ إذا وصل إلی المستحق بجہۃ أخری ، اعتبروا أصلاً بجہۃٍ مستحقَۃٍ إن وصل إلیہ من المستحق علیہ ، وإلا فلا ۔ (۷/۲۱۵ ، کتاب البیوع ، مطلب رد المشتري فاسداً إلی بائعہ) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : لأن سبیل الکسب التصدق إذا تعذر الرد علی صاحبہ ۔ (۹/۴۷۰ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في البیع ، الفتاوی الہندیۃ : ۵/۳۴۹ ، المحیط البرہاني : ۶/۹۷ ، الموسوعۃ الفقہیۃ : ۳۴/۲۴۵ ، السیر الکبیر : ۴/۴ ، الموسوعۃ الفقہیۃ : ۳۹/۴۰۷)(فتاوی محمودیہ :۱۶/۳۷۴ ، کراچی) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {أحل اللّٰہ البیع وحرم الربوا} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۷۵) ما في ’’ التفسیر المنیر ‘‘ : ومن عاد إلی أخذ الربا بعد تحریمہ فقد استوجب العقوبۃ واستحق الخلود في نار جہنم ، والمراد ہنا المکث الطویل إذا کان الفاعل مؤمناً ، وعبر بہ تغلیظاً بفعلہ ، ثم نبّہ اللّٰہ تعالی علی اضرار الربا وتبدید أثرہ ، فالربا یذہب اللّٰہ برکتہ ولا ینمیہ ، ولا یزیدہ في الحقیقۃ ، والواقع وإن زاد المال بسببہ في الظاہر فہو إلی ضیاع وفناء ۔ (۳/ ۹۶) ما في ’’ الصحیح لمسلم ‘‘ :عن جابر قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربا وموکلہ ،=