محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیوی کو جبراً لانا مسئلہ(۱۷۹): شوہر اگر مہرِ معجل ادا کرچکا ہے، تو عورت یا اس کے والدین کی رضامندی کے بغیر وہ اُسے اپنے گھر لاسکتا ہے، اور اگر مہرِ معجل ادا نہیں کیا ہے، تو جب تک ادا نہ کردے، اس وقت تک عورت کو اختیار ہے کہ وہ آنے سے انکار کردے(۱)، اور اگر عرف یہ ہو کہ کل مہر، مہرِ مؤجل ہوتا ہے، جو موت یا طلاق ہی کے وقت مانگا جاتا ہے، جیسا کہ بکثرت اس کا وقوع ہے ، تو پھر عورت کو شوہر کے گھر جانے سے انکار کا کوئی حق نہیں، مسافتِ قصر سے کم مسافت میں شوہر جہاں چاہے اس کو لے جاسکتا ہے، اور جبراً اپنے گھر پربھی لاسکتا ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (ولہا منعہ من الوطء) ودواعیہ ۔ شرح مجمع ۔ (والسفر بہا ولو بعد وطء وخلوۃ رضیتہما) ۔۔۔۔۔ (لأخذ ما بین تعجیلہ) من المہر کلہ أو بعضہ (أو) أخذ (قدر ما یعجل لمثلہا عرفًا) ۔ بہ یفتی ۔ لان المعروف کالمشروط ۔ (إن لم یؤجل) أو یعجل (کلہ) ۔ التنویر وشرحہ ۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ : قولہ : (والسفر) الأولی التعبیر بالإخراج کما عبر في الکنز لیعم الإخراج من بیتہا کما قالہ شارحوہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (لأخذ ما بین تعجیلہ) علّۃ لقولہ : ’’ ولہا منعہ ‘‘ أو غایۃ لہ ، واللام بمعنی إلی ۔۔۔۔۔۔۔۔ قولہ : (أو أخذ قدر ما یعجل لمثلہا عرفًا) أي إن لم یبین تعجیلہ أو تعجیل بعضہ فلہا المنع لأخذ ما یعجل لہا منہ عرفًا ۔ (۴/۲۱۶ ، کتاب النکاح ، مطلب في منع الزوجۃ نفسہا لقبض المہر ، دیوبند) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (وفي الصیرفیۃ) الفتوی علی اعتبار عرف بلدہما من غیر اعتبار الثلث أو النصف ، (وفي الخانیۃ) : یعتبر التعارف لأن الثابت عرفًا کالثابت شرطًا ۔(۴/۲۱۶) ما في ’’ شرح عقود رسم المفتي ‘‘ : والعرف في الشرع لہ اعتبار ٭ لذا علیہ الحکم=