محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بچت سرٹیفکٹ مسئلہ(۳۶۲): حکومت کی طرف سے مختلف قسم کے بچت سرٹیفیکٹ اور یونٹ وغیرہ جاری کیے جاتے ہیں، جو کہ چھ سال کے بعد دو گنا، اور دس سال کے بعد تین گنا قیمت کے ہوجاتے ہیں، شرعاً یہ زائد رقم سود کہلائے گی، اور حکومت بھی اس کو سود ہی سمجھتی ہے(۳)، لہٰذا اولاً اس طرح کی اسکیموں میں شرکت ہی نہ کی جائے، اور اگر نادانستہ طور پر شرکت کرلی گئی، تو اس سودی رقم کو لے کر غرباء وفقراء پر بلا نیتِ ثواب تقسیم کر دیا جائے ، خود استعمال نہ کرے ۔ (۴) ------------------------------ (۳) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {قالوٓا اِنّما البیع مثل الربوٰا وأحل اللّٰہ البیع وحرّم الرّبوٰا} ۔ (سورۃ البقرۃ : ۲۷۵) ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آکل الربوا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ وقال : ہم سوائٌ ‘‘ ۔ (۲/۲۷ ، باب الربوا) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : ہو لغۃ : مطلق الزیادۃ ۔ وشرعاً : (فضل) ولو حکماً فدخل ربا النسیئۃ والبیوع الفاسدۃ فکلہا من الربا ۔۔۔۔۔۔۔۔ (خال عن عوض) ۔۔۔۔ (بمعیار شرعي) وہو الکیل والوزن ۔۔۔ (مشروط) ذلک الفضل (لأحد المتعاقدین) ۔۔۔۔۔ (في المعاوضۃ) ۔ (۷/۳۹۸ - ۴۰۱ ، کتاب البیوع ، باب الربا ، بیروت) (الفتاوی الہندیۃ :۳/۱۱۷، کتاب البیوع ، الباب التاسع ، الفصل السادس) (۴) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : الحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردّہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ویتصدق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (۷/۲۲۳ ، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالا حراماً ، الفتاوی الہندیۃ :۵/۳۴۹ ، کتاب الکراہیۃ ، الباب الخامس)