محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مہر معاف کرنے پر ولی کو حقِ اعتراض مسئلہ(۱۶۷): عورت اپنے مہر کی خود مالکہ ہے، وہ اس کو جس طرح چاہے استعمال کرسکتی ہے، چاہے شوہر کو معاف کرے یا کسی کو ہدیہ دیدے، باپ یا کسی رشتہ دار کو اعتراض کا حق حاصل نہیں ہوگا۔(۱)مہر کے علاوہ رقم کا مطالبہ مسئلہ(۱۶۸): نکاح کے موقع پر لڑکی یا لڑکے والوں کی طرف سے مہر کے علاوہ کسی چیز کا مطالبہ کرنا، اور اس کا لینا دینا رشوت ہے(۲)، اور رشوت شریعتِ اسلامیہ میں حرام ہے، لہٰذا اس رقم کو جس سے لیا ہے اس کو واپس کرنا لازم ہے۔(۳) ------------------------------ (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : للمرأۃ أن تہب مالہا لزوجہا من صداق دخل بہا زوجہا أو لم یدخل ، ولیس لأحد من أولیائہا أب ولا غیرہ الاعتراض علیہا ۔ کذا في شرح الطحاوي ۔ (۱/۳۱۶ ، کتاب النکاح ، الفصل العاشر في ہبۃ المہر) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : وللمرأۃ : سواء أکانت بکرًا أم ثیبًا ولایۃ التصرف فی مہرہا بکل التصرفات الجائزۃ لہا شرعًا ، ما دامت کاملۃ الأہلیۃ کما ہو الشان في تصرف کل مالک فی ملکہ ، فلہا أن تشتری بہ ، وتبیعہ ، وتہبہ لأجنبی أو لزوجہا ، ولیس لأحد حق الاعتراض علی تصرفہا ، کما لیس لأحد أن یجبرہا علی ترک شيء من مہرہا لزوجہا أو لغیرہ ، ولو کان أباہا أو أمہا ، لأن المالک لا یجبر علی ترک شيء من ملکہ ، ولا علی اعطائہ لغیرہ ویورث عنہا مہرہا بوصفہ من سائر أموالہا مع مراعاۃ أن یکون من ضمن ورثتہا، وہذا عند جمہور الفقہاء ۔ (۳۹/۱۹۵، ۱۹۶) (فتاوی حقانیہ :۴/۳۶۶) الحجۃ علی ما قلنا : (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : (أخذ أہل المرأۃ شیئًا عند التسلیم فللزوج أن یستردّہ) لأنہ =