محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
صورتِ مضاربت مسئلہ(۴۰۳): ایک شخص کسی دوسرے کو ۵۰؍ ہزار روپئے دے کر یہ کہے کہ؛ تم اس مال سے تجارت کرو، جتنا نفع ملے گا، اس میں سے ۶۰؍ فیصد میرا ہوگا، اور بقیہ چالیس فیصد تمہارا، تو شرعاً اس عقد پر مضاربت کی تعریف صادق آرہی ہے، لہٰذا یہ صورت صحیح ودرست ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : المضاربۃ : ہي أن یدفع المالک الی العامل مالا لیتجر فیہ ، ویکون الرابع مشترکاً بینہما بحسب ما شرطا اتفق أئمۃ المذاہب علی جواز المضاربۃ بأدلۃ من القرآن والسنۃ والإجماع والقیاس ، إلا أنہا مستثناۃ من الغرر والإجارۃ المجہولۃ ۔ (۵/۳۹۲۴ ، ۳۹۲۵) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : اتفق الفقہاء علی مشروعیۃ المضاربۃ وجوازہا وذلک علی وجہ الرخصۃ أو الاستحسان فالقیاس أنہا لا یجوز ۔ (۳۸/۳۵ - ۳۷ ، بدائع الصنائع : ۵/۱۰۸، ۱۰۹) ما في ’’ المبسوط للسرخسی ‘‘ : الأصل فی جواز الشرکۃ ما روی أن السائب بن شریک جاء إلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فقال : أتعرفني ؟ فقال صلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ : وکیف لا أعرفک وکنت شریکی وکنت خیر شریک لا تداری ولا تماری ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والناس یفعلون ذلک فأقرہم علیہ ، وقد تعاملہ الناس من بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم إلی یومنا ہذا من غیر نکیر منکر ۔ (۱۱/۱۶۲، کتاب الشرکۃ)