محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تیجہ ، دسواں اورچالیسواں مسئلہ(۵۹): کسی کی وفات پر میت کے گھر والوں کا کچھ پڑھ کر ،یا غرباء کو کھانا کھلاکر ، یا کچھ صدقہ دے کر، ایصالِ ثواب اور میت کے لیے دعا واستغفار کرنا یقیناً درست ہے(۱)، مگر ایصالِ ثواب کے لیے تیجہ ، دسواں ، بیسواں اور چالیسواں وغیرہ سب ممنوع اور بدعت ہے، اور اس قسم کا کھانا کھانا مکروہ ہے ۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : الأصل فیہ أن الإنسان لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ ، أو صوماً ، أو صدقۃً ، أو قراء ۃ قرآن ، أو ذکراً ، أو طوافاً ، أو حجاً ، أو عمرۃ ، أو غیر ذلک عند أصحابنا للکتاب والسنۃ ۔ (۳/۱۰۵ ، باب الحج عن الغیر) ما في ’’ مراقي الفلاح ‘‘ : فللإنسان أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ عند أہل السنۃ والجماعۃ ، صلاۃ ، أو صوماً ، أو حجاً ، أو صدقۃ ، أو قراء ۃ للقرآن ، أو الأذکار ، أو غیر ذلک ، من أنواع البرّ ، ویصل ذلک إلی المیت وینفعہ ۔ (ص/۶۲۱ ، ۶۲۲ ، کتاب الجنائز) (۲) ما في ’’ الفتاوی البزازیۃ علی ہامش الہندیۃ ‘‘ : ویکرہ اتخاذ الطعام في الیوم الأول والثالث، وبعد الأسبوع والأعیاد ، ونقل الطعام إلی القبر في المواسم ، واتخاذ الدعوۃ بقراء ۃ القرآن وجمع الصلحاء ، والقراء ۃ للختم ، أو لقراء ۃ سورۃ الأنعام أو الإخلاص ، فالحاصل أن اتخاذ الطعام عند قراء ۃ القرآن لأجل الأکل مکرم ۔ (۴/۸۱ ، باب صلاۃ الجنازۃ) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ویکرہ اتخاذ الضیافۃ من الطعام من أہل المیت ، لأنہ شرع في السرور لا في السرور ، وہي بدعۃ مستقبحۃ ، وروی الإمام أحمد ، وابن ماجۃ بإسناد صحیح ، عن جریر بن عبد اللہ قال : ’’ کنا نعدّ الإجتماع إلی أہل البیت وصنعہم الطعام من النیاحۃ ‘‘ ۔ (۳/۱۳۹۰ ، کتاب الصلاۃ ، مطلب في کراہۃ الضیافۃ من أہل المیت ، کذا في حلبي کبیر :ص/۶۰۹ ، فصل في الجنائز ، مسائل متفرقۃ ، رد المحتار :۹/۶۶ ، کتاب الإجارۃ) (فتاوی محمودیہ :۳/۸۸،کراچی)