محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
غیر ملکی ویزوں کی تجارت مسئلہ(۳۱۳): آج کل بہت سے لوگ غیر ملکی ویزوں کی تجارت کرتے ہیں، حالانکہ بیع میں مال کی شرط جوہری وبنیادی ہے(۱)، جب کہ ویزا فی نفسہٖ مال نہیں، بلکہ محض ایک ایسا حق ہے جس کی بنیاد پر انسان کسی ملک میں داخلہ اور رہائش کا مجاز ہوتا ہے(۲)، اس لیے غیر ملکی ویزوں کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے(۳)، جیسا کہ اسلامک فقہ اکیڈمی انڈیا کے ۱۳- ۱۶؍ ذیقعدہ ،۱۴۱۰ھ کی درج ذیل تجویز کے مفہوم مخالف سے ثابت ہوتا ہے: ’’جو حقوق نصوص شرعیہ سے ثابت ہوں، البتہ ان سے مالی منفعت متعلق ہوگئی اور عرف میں ان کا عوض لینا مروج اور معروف ہوچکا ہو، نیز ان کی حیثیت محض دفع ضرر کی نہ ہو، اور نہ وہ شریعت کے عمومی مقاصد ومصالح سے متصادم ہوں، ایسے حقوق پر عوض کا حاصل کرنا جائز اور درست ہے۔‘‘(۴) ------------------------------ =ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : والأصل فیہ انا متی عرفنا ما یأخذون منا أخذنا منہم مثلہ ، بذلک أمر عمر وإن لم نعرف أخذنا منہم العشر لقولہ عمر ، فإن اعیانکم فالعشر وإن کانوا یأخذون الکل نأخذ منہم الجمیع إلا قدر ما یوصلہ إلی مأمنہ فی الصحیح لما ذکرنا ۔ (۲/۸۸ ، باب العاشر ، الجامع الصغیر :ص/۱۲۷، الاختیار لتعلیل المختار:۱/۱۶۸، مجمع الأنہر :۱/۳۰۹ ، الدر المختار مع الشامیۃ :۳/۲۲۸) (فتاوی حقانیہ :۶/۷۰،و۶/۶۹) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : حدثنا قتیبۃ بن سعید ، عن مالک عن نافع ، عن ابن عمر : أن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ ﷺ ’’ نہی عن النجش ‘‘ ۔ (رقم : ۶۹۶۳ ، باب ما یکرہ من التّناجش) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وبطل بیع مال غیر متقوم أي غیر مباح الانتفاع=