محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
انعامی اسکیموں کے ساتھ خرید وفروخت مسئلہ(۳۶۰): آج کل بہت ساری دوکانوں پر گراہکوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کے لیے خریدی گئی چیز کے ساتھ انعام بھی رکھا جا تا ہے، جس کی بنا پر لوگ ان اشیاء کو زیادہ سے زیادہ خریدتے ہیں، تو اگر خریدی ہوئی چیزوں کے ساتھ ہر خریدار کو انعام کے طور پر مزید کوئی چیز دی جاتی ہے، تو اس کے جائز ہونے میں کوئی شبہ نہیں، یہ فروخت کرنے واـلے کی طرف سے ایک طرح کا اضافہ ہے، اور فقہاء نے مبیع میں اضافہ کو جائز قرار دیا ہے، اور چوں کہ خریدار کو اپنے پیسے کی چیز مل جاتی ہے، اس لیے یہ صورت جوے کے دائرہ میں نہیں آتی، لیکن اب خریدنے والے کی نیت پر منحصر ہے، اگر خریدنے والے کا مقصود سامان خریدنا تھا، اس کے ساتھ انعامی کوپن مل گیا، اور اتفاق سے کوپن میں اس کا نام نکل آیا، تو اس میں کوئی قباحت نہیں(۱)، لیکن اگر اصل مقصود ہی انعامی کوپن حاصل کرنا تھا، اور اسی مقصد سے سامان خریدا گیا تھا(۲)، تو یہ صورت جائز نہ ہوگی، بلکہ یہ جوا کے حکم میں ہوگا۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ نوازل فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : بناء علی تعین المبیع والثمن وحصول کل مشتری علی مبیعہ المطلوب وتوزیع الجوائز من قبل الشرکات من مکاسبہا الخاصۃ ، یجوز ہذا العمل ولو کان العوض الحاصل لأحد الجانبین مجہولاً أو محتملاً ، ویلتقی الواحد ویحرم الثانی یکون ذلک حسب قول الجصاص ، غیر شاملۃ للمیسر والقمارفلا بأس فیہا ، وہذا ہو رأی العلامۃ المفتی محمد شفیع من کبار العلماء ہذا العصر ۔ (۱/۳۲۷) (۲) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : ’’ إنما الأعمال بالنیات ‘‘ ۔ (۱/۲)=