محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
۱۲؍ ربیع الاول وغیرہ تاریخوں میں عرس مسئلہ(۸): ۱۲؍ ربیع الاول یا کسی بزرگ کی تاریخ وفات پر جو عرس لگتا ہے، اور اس میں ڈھول باجوں کے ساتھ قوالیاں ہوتی ہیں، شریعتِ مطہرہ میں اس کی کوئی اصل نہیں(۱)، بلکہ یہ بہت سے مفاسد وبرائیوں پر مشتمل ہیں(۲)، جن میں سے ایک میوزک کے ساتھ قوالی کی محفل ہے، جس کے ناجائز ہونے پر دلائلِ فقہیہ دال ہیں (۳)،لہٰذا یہ دونوں چیزیں (عرس وقوالی) شرعاً ناجائز اورممنوع ہیں۔(۴) ------------------------------ =وما في ’’ اعلاء السنن ‘‘ : قال المؤلف : دلالتہ علی الباب ظاہرۃ ، فإن ما یبتغي بہ وجہ اللّٰہ ظاہر في العبادۃ المقصودۃ ، فغیر المقصود لا یبتغی بہ وجہ اللہ إلا بواسطۃ ، والمطلق إذا أطلق یراد بہ الفرد الکامل ، فالمراد العبادۃ المقصودۃ لا غیر ۔ فافہم ۔ ویؤید ما مرّ من أنہ ﷺ ألغی تعیین بیت المقدس للصلاۃ في النذر مع أن للصلاۃ فیہ فضلا تدل علی أن النذر بعبادۃ غیر مقصودۃ لا ینعقد ولا یجب إیفاؤہ ۔ (۱۱/۴۹۷) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ومنہا أن یکون قربۃ مقصودۃ فلا یصح النذر بعبادۃ المرضی وتشییع الجنائز والوضوء والإغتسال ، ودخول المسجد ، ومسّ المصحف والأذان ، وبناء الرباطات والمساجد ، وغیر ذلک ، وإن کانت قربا ، لأنہا لیست بقرب مقصودۃ ۔ (۴/۲۲۸) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : واعلم بأنہم صرّحوا بأن شرط لزوم النذر ثلاثۃ : کون المنذور لیس بمعصیۃ ، وکونہ من جنسہ واجب ، وکون الواجب مقصوداً لنفسہ ۔ (۲/۵۱۴) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وأقبح منہ النذر بقراء ۃ المولد في المنابر مع اشتمالہ علی الغناء واللعب ، وایہاب ثواب ذلک إلی حضرۃ المصطفیٰ ﷺ ۔ (۳/۳۸۰) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المنتقی مع مجمع الأنہر ‘‘ : (فما ظنک بہ عند الغناء الذي یسمون وجدًا) ومحبۃ ، فإنہ مکروہ ، لا أصل لہ في الدین ، زاد في الجواہر : وما یفعلہ متصوفۃ زماننا حرام ، لا یجوز القصد والجلوس إلیہ ، ومن قبلہم لم یفعلہ ۔(۴/۲۱۹ ، کتاب الکراہیۃ ، في المتفرقات)=