محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عقدِ رہن سے رجوع مسئلہ(۵۱۱): عقدِ رہن اسی وقت صحیح ہوگا جب راہن، شئ مرہونہ کو مرتہن کے سپرد کرے ،اور مرتہن اس پر قبضہ کرلے(۱)، لیکن اگر راہن شئ مرہونہ پر قبضہ دینے سے پہلے ہی رہن رکھنے سے انکار کرتا ہے، تو شرعاً یہ جائز ودرست ہے، کیوں کہ شی ٔ مرہونہ پر قبضہ دینے سے پہلے، راہن کے لیے عقدِ رہن کو فسخ کرنے کا اختیار حاصل ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {فرِہٰن مقبوضۃ} ۔ (سورۃ البقرۃ :۲۸۳) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : اتفق العلماء في الجملۃ علی أن القبض شرط في الرہن ، ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ودلیلہم قولہ تعالی : {فرہٰن مقبوضۃ} ۔ [البقرۃ :۲۸۳] فلو لزم بدون القبض لم یکن للتقیید بہ فائدۃ ، فقد علقہ سبحانہ بالقبض فلا یتم إلا بہ ولأن الرہن عقد تبرع أو إرفاق (أي نفع) یحتاج إلی القبول ، فیحتاج إلی القبض لیکون دلیلاً علی إمضاء العقد ۔ (۶/۴۲۳۷ ، المطلب الخامس) (۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : قال الجمہور غیر المالکیۃ : القبض لیس شرط صحۃ وإنما ہو شرط لزوم الرہن فلا یلزم الرہن إلا بالقبض فما لم یتم القبض یجوز للراہن أن یرجع عن العقد وإذا سلمہ الراہن للمرتہن وقبضہ لزم الرہن ولم یجز للراہن أن یفسخہ وحدہ بعد القبض ۔ (۶/۴۲۳۷ ، المطلب الخامس ، شرط تمام الرہن ، قبض المرہون) (مالی معاملات پر غرر کے اثرات:ص/۲۴۸،۲۴۹)