محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
درخت پر آموں کی خرید و فروخت مسئلہ(۲۲۸): آموں کے پکنے سے پہلے انہیں فروخت کرنا جائز ہے، اور بیع ہوجانے کے بعد بائع کی اجازت سے ،ان کا درخت پر چھوڑے رکھنا بھی جائز ہے۔(۱) ------------------------------ =ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : قال الطیبي : لعن من سعی فیہا سعیاً ما علی ما عدد من العاصر والمعتصر ، وما أردفہما ، وإنما أطنب فیہ لیستوعب من زاولہا مزاولۃ بأي وجہ کان ۔ (۶/۲۳ ، کتاب البیوع ، باب الکسب وطلب الحلال) (فتاوی محمودیہ :۱۶/۱۳۱،۱۳۲،۱۳۳،کراچی) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ومن باع لم یبد صلاحہا ، أو قد بدأ جاز البیع ، لأنہ مال متقوم ، إما لکونہ منتفعاً بہ في الحال أو في المآل ، وقد قیل لا یجوز قبل أن یبدو صلاحہا ، والأول أصح، وعلی المشتري قطعہا في الحال تفریغًا لملک البائع ہذا اشتراہا مطلقًا أو ترکہا بإذن البائع طاب لہ الفضل ۔ انتہی ملخصًا ۔ (۳/۳۲ ، کتاب الشرکۃ) ما في ’’ تبیین الحقائق ‘‘ : ومن باع ثمرۃ بدا صلاحہا أو لا صحّ ، ویقطعہا المشتري تفریغًا لملک البائع إذا اشتراہا بشرط القطع ، ولو اشتراہا مطلقًا وترکہا بإذن البائع طاب لہ الفضل ۔ (۴/۲۹۵، کتاب البیوع ، بیروت) ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : ومن باع ثمرۃ بدا صلاحہا أو لم یبد صحّ ، ویقطعہا المشتري للحال ۔۔۔۔۔۔۔ فإن تراضیا علی بقائہ جاز ۔ (۳/۴۷۷ ، کتاب البیوع ، باب بیع الثمار قبل أن یبدو صلاحہا) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولو اشتراہا مطلقًا وترکہا بإذن البائع طاب لہ الفضل ۔ (۳/۱۰۶ ، کتاب البیوع ، الباب التاسع فیما یجوز بیعہ وما لا یجوز) (فتاوی عبد الحی :ص/۲۷۴، مکتبہ تھانوی دیوبند)