محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ملازمت کے لیے رشوت مسئلہ(۳۴۵): رشوت کا دینا اور لینا دونوں حرام ہیں(۱)، البتہ کسی شخص میں کسی کام کے کرنے کی پوری اہلیت وصلاحیت موجود ہو، مگر متعلقہ محکمہ کا آفسیر بغیر رشوت لیے، ملازمت دینے کے لیے تیار نہ ہو، اور کسی دوسرے روزگار کی صورت میسر بھی نہ ہو، تو شخصِ مذکور اس مجبوری کی حالت میں رشوت دے کر ملازمت پر بحال ہوسکتا ہے، امید ہے کہ عند اللہ اس کا مؤاخذہ نہ ہوگا، البتہ رشوت لینے والے آفیسر کے لیے اس رشوت کا لینا ناجائز وحرام ہوگا۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوا لا تأکلوآ أموالکم بینکم بالباطل وتدلوا بہآ إلی الحکّام لتأکلوا أموال الناس بالإثم} ۔ (سورۃ النساء:۲۹) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضی اللّٰہ تعالی عنہ قال : ’’ لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم الراشي والمرتشي فی الحکم ‘‘ ۔ (۱/۲۴۸ ، أبواب الأحکام ، ما جاء في الراشي والمرتشي) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : الرشوۃ أربعۃ أقسام : ۔۔۔۔۔ الثالث أخذ المال لسوی أمرہ عند السلطان دفعاً للضرر ، أو جلب للنفع ، وہو حرام علی الآخذ فقط ، الرابع : ما یدفع لدفع الخوف من المدفوع إلیہ علی نفسہ أو مالہ حلال للدافع حرام علی الآخذ ، لأن دفع الضرر عن المسلم واجب ۔ (۸/۳۳) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : إذا دفع الرشوۃ لسوی أمرہ عند السلطان حل لہ الدفع ولا یحل للآخذ أن یأخذ ۔ (۶/۴۴۱) (فتاوی محمودیہ: ۱۸/۴۵۵،۴۵۶، کراچی) ما في ’’ أحکام القرآن للجصاص ‘‘ : الرشوۃ ؛ وہو الذي یرشو السلطان لدفع ظلمہ عنہ ، فہذہ الرشوۃ محرّمۃ علی آخذہا غیر محظورۃ علی معطیہا ۔ وروي عن جابر بن زید والشعبي قالا : ’’ لا بأس بأن یصانع الرجل عن نفسہ ومالہ إذا خاف الظلم ‘‘ ۔۔۔۔۔ قال =