محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
منی آرڈر مسئلہ(۳۴۰): منی آرڈر میں یوں ہوتا ہے کہ بھیجے گئے پیسے مرسل إلیہ کو نہیں ملتے ہیں، بلکہ اگر شہر کی بینک میں جمع کردو، تو دوسرے شہر کی بینک اپنے پاس کی رقم مرسل الیہ کو ادا کردیتی ہے، کیوں کہ منی آرڈر مرکب ہے دو معاملوں سے ، ایک قرض جو اصل رقم سے متعلق ہے، دوسرے اجارہ جو فارم کے لکھنے اور روانہ کرنے پر بنام فیس کے دی جاتی ہے، اور دونوں معاملے جائز ہیں، پس دونوں کا مجموعہ بھی جائز ہے(۱)، اور چوںکہ اس میں ابتلاء عام ہے، اس لیے یہ تاویل کرکے جواز کا فتویٰ مناسب ہے ۔ (۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : والقرض ہو أن یقرض الدراہم والدنانیر أو شیئاً مثلیاً یأخذ مثلہ فی ثاني الحال ۔ (۵/۳۶۶ ، الباب السابع والعشرون) ما في ’’ بحوث في قضایا فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : القرض یجب في الشریعۃ الإسلامیۃ أن تقضی بأمثالہا ۔۔۔۔۔ والذي یتحقق من النظر في دلائل القرآن والسنۃ ومشاہدۃ معاملات الناس أن المثلیۃ المطلوبۃ في القرض ہي المثلیۃ في المقدار والکمیۃ ، دون المثلیۃ في القیمۃ والمالیۃ۔ (ص/۱۷۴) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {قالت یـٰٓاَبت استأجرہ إن خیر من استأجرتَ القويُّ الأمین} ۔ (سورۃ القصص:۲۶) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن عروۃ بن الزبیر ، عن عائشۃ رضي اللہ عنہا : واستأجر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وأبو بکر رجلا من بني الدِّیل ، ثم من بني عبد بن عدي ہادیاً خرِّیتاً - الخرّیت الماہر بالہدایۃ - ۔ (۱/۳۰۱ ، في الإجارات) (۲) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : أما في الاصطلاح فیفہم من عبارات الفقہاء أن المراد=