محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مبیع خراب ہونے پر درستگی کی شرط مسئلہ(۲۴۳): اگر کوئی چیز خریدتے وقت مشتری کی طرف سے یہ شرط لگائی جائے کہ خرابی واقع ہونے پر بائع اسے درست کرکے دے گا، اور بائع اس شرط کو قبول کرلے، تو اس طرح شرط لگانا درست ہے، گرچہ یہ شرط مقتضائے عقد کے خلاف ہے(۱)، لیکن چوںکہ یہ شرط متعارَف ہے، اس پر سب عمل کرتے ہیں، تو متعارف ہونے کی وجہ سے شرعاً یہ عقد اس شرط کے ساتھ درست ہے۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : وکل شرط لا یقتضیہ العقد وفیہ منفعۃ لأحد المتعاقدین أو للمعقود علیہ وہو من أہل الاستحقاق یفسدہ ۔ (۳/۴۳ ، باب البیع الفاسد) (۲) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن کثیر بن عبد اللّٰہ بن عمرو بن عوف المزنی عن أبیہ عن جدہ أن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ قال : ’’ الصلح جائز بین المسلمین إلا صلحًا حرم حلالا وأحل حرامًا ، والمسلمون علی شروطہم إلا شرطاً حرم حلالا أو أحل حرامًا ‘‘ ۔ قال أبوعیسی : ہذا حدیث حسن صحیح ۔ (۲/۳۴۳ ، رقم الحدیث :۱۳۵۲) ما في ’’ فقہ النوازل ‘‘ : النوع الأول : ضمان الأداء ؛ وہو یتعلق بأمرین ، فما کان منہ متعلقاً بسلامۃ المبیع من العیوب المصنعیۃ والفنیۃ ، فإنہ یتخرج علی ضمان العیب الذي لا یعلم إلا بامتحان وتجربۃ واستعلام ، وأما ما کان منہ متعلقاً بصلاحیۃ المبیع وقیامہ بالعمل فإنہ یخرج علی ضمان العیب الحادث في المبیع عند المشتري والمستند سبب سابق ، والراجح جواز ضمان الأداء ۔ (۳/۱۱۹، وثیقۃ رقم :۱۴۰، مکتبہ دار ابن الجوزي) (انعام الباری :۶/۳۲۱) ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : استعمال الناس حجۃ یجب العمل بہا ۔ (ص/۵۷ ، رقم المادۃ :۲۶) ما في ’’ شرح عقود رسم المفتي ‘‘ : والـعـرف في الـشــرع لـہ اعــتــبــار لــذا عـلـیـہ الـحـکـم قــد یـــدار (ص/۱۷۵)