محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
کیا رام ، لچھمن وغیرہ پیغمبر تھے ؟ مسئلہ(۱۴): جس طرح ثابت النبوۃنبی(جس نبی کی نبوت ثابت ہو) کی نبوت کا انکار جائز نہیں، اسی طرح غیر ثابت النبوۃ نبی ( جس کی نبوت ثابت نہ ہو) کی نبوت کا اعتراف بھی جائز نہیں، اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں جن انبیاء کرام کے ناموں کی تصریح کی ہے، ان میں سے ہر ایک پر بالتعیین ایمان رکھنا ضروری ہے، البتہ جن کے احوال کو رب سبحانہٗ نے پردۂ خفاء میں رکھا اُن پر اِجمالی ایمان کافی ہے، نہ تو ان کی بحث وتفتیش کر نی ہے، اور نہ اس کا علم انقطاعِ وحی (سلسلۂ وحی بند ہونے) کے بعد ہوسکتا ہے، رام لچھمن وغیرہ حضرات کی نبوت پر کوئی دلیل قطعی قائم نہیں، لہٰذا ان کی نبوت کا اعتراف کرنا یا اس کا عقیدہ رکھنا جائز نہیں۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ورسلا قد قصصناہم علیک من قبل ورسلا لم نقصصہم علیک} ۔ (سورۃ النساء :۱۶۴) ما في ’’ شرح الفقہ الأکبر ‘‘ : یجب أن یقول : آمنت باللہ وملائکتہ وکتبہ ورسلہ ۔ (ص/۲۶) ما في ’’ شرح العقائد النسفیۃ ‘‘ : والأولی أن لا یقتصر علی عدد فی التسمیۃ ۔۔۔۔۔۔ ولا یؤمن فی ذکر العدد أن یدخل فیہم من لیس منہم أو یخرج منہم من ہو فیہم ۔۔۔۔۔ ویحتمل مخالفۃ الواقع وہو عد النبي ﷺ من غیر الأنبیاء أو غیر النبی من الأنبیاء ۔(ص/۱۳۹،۱۴۰) ما في ’’ شرح عقیدۃ الطحاوي ‘‘ : وأما الأنبیاء والمرسلون فعلینا الإیمان بمن سمی اللہ تعالی فی کتابہ من رسلہ ، والإیمان بأن اللہ أرسل رسلا سواہم وأنبیاء لا یعلم أسمائہم وعددہم إلا اللہ تعالی الذی أرسلہم ، فعلینا الإیمان بہم جملۃ لأنہ لم یأت فی عددہم نص ۔ (ص/۲۸۹) (فتاویٰ محمودیہ: ۱/۴۵۳،۴۵۵، کراچی)