محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
شہید کی قسمیں مسئلہ(۶۱): شہید کی دو قسمیں ہیں: شہید دنیوی، شہید اخروی۔شہید دنیوی کا حکم یہ ہے کہ اس کو غسل نہیں دیا جاتا، اور نہ اس کے پہنے ہوئے کپڑے اتارے جاتے ہیں، بلکہ بغیر غسل کے اس کے خون آلود کپڑوں سمیت کفن برابر کرکے نمازِ جنازہ کے بعد دفن کردیا جاتا ہے۔شہادت کا یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جو مسلمان ، عاقل اور بالغ ہو، وہ کافروں کے ہاتھوں سے مارا جائے ، یا میدان جنگ میں مرا ہوا پایا جائے، اور اس کے بدن پر قتل کے نشانات ہوں، یا ڈاکؤوں ، چوروں نے اس کو قتل کردیا ہو، یا وہ اپنی مدافعت کرتے ہوئے مارا جائے، یا کسی مسلمان نے اس کو آلۂ جارحہ کے ساتھ ظلماً قتل کردیا ہو ، اور قاتل ------------------------------ =مدۃ السفر ، وقیدہ محمد بقدر میل أو میلین ، لأن مقابر البلد ربما بلغت ہذہ المسافۃ فیکرہ فیما زاد ۔ قال في النہر عن عقد الفرائد : وہو الظاہر اہـ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وأما نقل یعقوب ویوسف علیہما السلام من مصر إلی الشام لیکونا مع آبائہما الکرام فہو شرع من قبلنا ولم یتوفر فیہ شروط کونہ شرعاً لنا ۔ اہـ ۔ (۳/۱۴۶، ۱۴۷، کتاب الجنائز ، باب صلاۃ الجنازۃ ، مطلب في دفن المیت ، دار الکتب العلمیۃ بیروت) ما في ’’ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح ‘‘ : (ویستحب الدفن فی) مقبرۃ (محل مات بہ أو قتل) لما روي عن عائشۃ رضی اللہ عنہا أنہا قالت حین زارت قبر أخیہا عبد الرحمن وکان مات بالشام وحمل منہا : ’’ لو کان الأمر فیک إلي ما نقلتک ، ولدفنتک حیث مت‘‘ ۔ (فإن نقل قبل الدفن قدر میل أو میلین) ونحو ذلک (لا بأس بہ) لأن المسافۃ إلی المقابر قد تبلغ ہذا المقدار (وکرہ نقلہ لأکثر منہ) أي أکثر من المیلین ۔ کذا فی الظہیریۃ ۔ مراقي الفلاح ۔ وفي حاشیۃ الطحطاوي : قولہ : (بیان أن النقل من بلد إلی بلد مکروہ) أی تحریماً لأن قدر المیلین فیہ ضرورۃ ، ولا ضرورۃ فی النقل إلی بلد آخر ۔ (ص/۶۱۳،۶۱۴، کتاب الصلاۃ ، فصل فی حملہا ودفنہا ، مکتبہ شیخ الہند دیوبند) (فتاویٰ محمودیہ: ۹/۱۲۴- ۱۳۱، احسن الفتاویٰ: ۴/۲۱۸- ۲۲۱، حاشیہ نور الانوار: ص/ ۹، قوت الاخیار شرح نور الانوار: ۱/۵۱)