محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
دھان وغیرہ میں پانی ملاکر فروخت کرنا مسئلہ(۳۵۸): آج کل بہت سے مسلمان تاجر؛ دھان وغیرہ میں پانی ملاکر فروخت کرتے ہیں، جب کہ مسلمان کی شان کسی کو دھوکہ دینے کی نہیں ہوتی ہے، لیکن اگر کسی شخص نے ایسا کرلیا تو وہ سخت گنہگار ہوگا، اور پانی ملانے کی وجہ سے جس قدر وزن میں اضافہ ہوا ، اس کے مقابل قیمت وعوض بھی شرعاً حرام ہے، اس کا اصل مالک کو یا اس کے ورثاء کو لوٹانا واجب ہے، اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو اصل مالک کی طرف سے نیت کرکے اس کافقراء پر صدقہ کرنالازم ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ ؛ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرّ برجل یبیع طعاماً فسألہ کیف تبیع ؟ فأخبرہ ، فأوحی إلیہ أن ادخل یدک فیہ ، فأدخل یدہ فیہ فإذا ہو مبلول ، فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ لیس منا من غشّ ‘‘ ۔ (ص/۴۸۹ ، کتاب البیوع ، باب في النہي عن الغشّ) ما في ’’ مشکوٰۃ المصابیح ‘‘ : عن واثلۃ بن الأسقع قال : سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول : ’’من باع عیباً لم ینبہ لم یزل في مقت اللّٰہ أو لم تزل الملائکۃ تلعنہ ‘‘ ۔ رواہ ابن ماجہ ۔ (ص/۲۴۹ ، کتاب البیوع ، باب المنہي عنہا من البیوع ، الفصل الثالث) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : اتفق الفقہاء علی أن الغشّ حرام ، سواء أکان بالقول أو بالفعل وسواء أکان بکتمان العیب في المعقود علیہ أو الثمن أم بالکذب والخدیعۃ ، وسواء أکان في المعاملات أم في غیرہا من المشورۃ والنصیحۃ ۔ (۳۱/۲۱۹) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : والحاصل أنہ إن علم أرباب الأموال وجب ردّہ علیہم ، وإلا فإن علم عین الحرام لا یحل لہ ، ویتصدّق بہ بنیۃ صاحبہ ۔ (۷/۲۲۳، کتاب البیوع ، مطلب فیمن ورث مالاً حراماً) (فتاوی محمودیہ: ۱۶/۱۴۵،کراچی)