محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نہیں ہے، کیوں کہ بیع نام ہے ’’مبادلۃ المال بالمال‘‘ کا(۱) ، اور مال فقہاء کرام کے نزدیک عین (حقیقۃً کسی چیز)کو کہا جاتا ہے(۲)، لہٰذ ا خریدو فروخت کی مذکورہ صورت پر بیع کی تعریف صادق نہ آنیکی وجہ سے، یہ ناجائز ہے۔(۳)عیب دار اشیاء کی خریدوفروخت مسئلہ(۲۷۸): عیب دار اشیاء اگر مشتری سے عیوب کو چھپاکر فروخت کی جائیں، تو ناجائز ہے(۴)، لیکن اگر مشتری کو بتا کر فروخت کی جائیں تو جائز ہے۔(۵) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : البیع مبادلۃ مال بمال أی تملیک المال ۔ (۳/۴) (۲) ما في ’’ مجمع الأنہر ‘‘ : والمراد بالمال عین یجری فیہ التنافس والإبتذال ۔ (۳/۴) (۳) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : سفل وعلو بین رجلین انہدما فباع صاحب العلو لم یجز لأن الہواء لیس بمال ۔ (۵/۱۴۵، کتاب البیوع ، أرض الموات) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : ویجوز بیع العلو إذا کان علی العلو بناء وإن لم یکن علیہ بناء لا یجوز لأنہ بیع الہواء علی الإنفراد وہو لا یجوز ۔ (۶/۶۱۵) (آپ کے مسائل اور ان کا حل: ۶/۳۳،قدیم) الحجۃ علی ما قلنا : (۴) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : ’’ من باع عیبًا لم ینبہ لم یزل فی مقت اللّٰہ أو لم تزل الملٓئکۃ تلعنہ ‘‘ ۔ (۱/۲۴۹ ، باب المنہی عنہ من البیوع) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : لا یحل کتمان العیب فی بیع أو ثمن لأن الغشّ حرام ۔ (۲/۲۳ ، باب خیار العیب) ما في ’’ البحر الرائق ‘‘ : کتمان عیب السلعۃ حرام ۔۔۔۔۔۔۔ وفی التفاوی : إذا باع سلعۃ معیبۃ علیہ البیان ۔ (۶/۵۸ ، الہدایۃ :۳/۲۳) (۵) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللّٰہ تعالی عنہ ، أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مر=