محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ایک مجلس کی تین طلاق مسئلہ(۱۸۵): ایک مجلس میں دی گئیں تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں، وہ حضرات جو تین طلاق کو ایک ہی شمار کرتے ہیں، ان کا نظریہ سراسر غلط ، گمراہ کن اور قرآن وحدیث، اجماعِ صحابہ ، فقہاء ، مشائخ اور أئمہ مسلمین، نیز سعودی عرب کے جید علماء کی نامزد ومنتخب تحقیقاتی کمیٹی کے متفقہ فیصلہ کے خلاف ہے۔تین طلاق کا ثبوت قرآنِ کریم سے : {الطّلاق مرّتٰن} ۔ {فإن طلّقہا فلا تحلُّ لہ من بعد حتّی تنکح زوجاً غیرہ} ۔ مفسرینِ عظام اس آیت کا شانِ نزول یہ بیان کرتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگوں کی یہ عادت تھی کہ بے حساب واَن گنت طلاقیں دیا کرتے تھے، اور کوئی یہ کرتا کہ طلاق دیتا اور جب عدت ختم ہونے کا وقت قریب آتا، تو ایذا رسانی کی نیت سے رجعت کرلیتا، پھر طلاق دیتا پھر رجعت کرتا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آیتِ کریمہ: {الطلاق مرّتان} نازل فرمائی، ’’مرتان‘‘ یہاں ’’ اثنتان ‘‘ کے معنی میں ہے، اسی کو علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے نظم قرآن سے زیادہ مناسب اور سبب نزول سے خوب چسپاں بتایاہے، یعنی طلاقِ رجعی دو ہیں، اس کے بعد رجعت کا حق نہیں، نیز اس آیت کا مقصد ------------------------------ =(کنایہ): وفیہ أیضًا : ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہو الکنایات لا یقع بہا الطلاق إلا بالنیۃ أو بدلالۃ الحال ، لأنہا غیر موضوعۃ للطلاق ، بل تحتملہ وغیرہ فلا بد من التعیین أو دلالتہ ۔ (۵/۱۰۵ ، باب الطلاق بلفظ الکنایۃ) ما في ’’ قواعد الفقہ ‘‘ : الأصل للحالۃ من الدلالۃ کما للمقالۃ ۔ (ص/۱۳ ، رقم الأصول : ۷) (جامع الفتاوی :۱۰/۱۶۹،۱۷۰)