محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
بیوی سے دوری کتنے عرصے تک؟ مسئلہ(۱۸۰): شوہر اپنی بیوی سے کتنے عرصہ تک دور رہ سکتا ہے؟اس سلسلے میں سب کے لیے ایک ہی مدت متعین کرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ صحت ، قوت، شہوت اور صبر وتحمل کے اعتبار سے عورتوں کے حالات مختلف ہوتے ہیں، تاہم! چار ماہ سے زائد بیوی کی رضامندی واجازت کے بغیراس سے جدا نہ رہے۔(۱) ------------------------------ = قد یدار۔ (ص/۱۷۵) ما في ’’ الأصول والقواعد للفقہ الإسلامي ‘‘ : الثابت بالعرف کالثابت بالنصّ ۔ (ص/۱۵۴، القاعدۃ :۱۰۷) (امداد الاحکام :۳/۳۸۰، کتاب النکاح ، شوہر اپنی بیوی کو والدین کے گھر سے جبراً لاسکتا ہے) الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : ولا یبلغ مدۃ الإیلاء إلا برضاہا ، وہو أربعۃ أشہر یفید أن المراد إیلاء الحرۃ، ویؤید ذلک أن عمر رضي اللہ تعالی عنہ سمع في اللیل امرأۃ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فسأل بنتہ حفصۃ : کم تصبر المرأۃ عن الرجل ؟ فقالت : أربعۃ أشہر ، فأمر أمراء الأجناد أن لا یتخلف المتزوج عن أھلہ أکثر منہا ۔ (۴/۳۸۴ ، کتاب النکاح ، باب القسم ، دار الکتاب دیوبند) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : لکن الکمال بن الہمام عقب علی ذلک بقولہ : لو أراد أن یدور سنۃ سنۃ ما یظن إطلاق ذلک لہ ، بل ینبغي أن لا یطلق لہ مقدار مدۃ الإیلاء ، وہو أربعۃ أشہر، وإذا کان وجوبہ للتأنیس ودفع الوحشۃ ، وجب أن تعتبر المدۃ القریبۃ وأظن أکثر من جمعۃ مضارۃ إلا أن ترضیا بہ ۔ (۳۳/۱۹۵ ، قسم بین الزوجات ، مدۃ القسم) ما في ’’ النہر الفائق ‘‘ : ویجب أن لا یبلغ بہ مدۃ الإیلاء إلا برضاہا ۔ (۲/۲۹۴ ، کتاب النکاح ، باب القسم ، دار الإیمان سہارنفور ، البحر الرائق : ۳/۳۸۲ ، کتاب النکاح ، باب القسم ، فتح القدیر : ۳/۴۱۳ ، کتاب النکاح) (فتاوی محمودیہ: ۱۸/۵۷۴، کراچی)