محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مصنوعی بال لگواتے ہیں، تاکہ خوب زینت ظاہر ہو، تو اگر مغربی تہذیب کو اپناتے ہوئے مرد وعورت کا مصنوعی بال لگانا، اس غرض سے ہو کہ زینت ظاہر ہو ، تو یہ جائز نہیں ہے، کیوں کہ عموماً مصنوعی بال انسانوں کے ہوتے ہیں، اور انسانوں کے بال سے انتفاع گناہِ کبیرہ اور موجبِ لعنت ہے، ہاں! اگر یہ بال غیر انسان کے ہوں تو یہ عمل مکروہ ہے، رہا مرد! تو اس کے لیے اس طرح کی زینت درست ہی نہیں، چہ جائیکہ مغربی تہذیب کو آئیڈیل بناکر اس طرح کے بالوں کو استعمال کرنا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن أبي ہریرۃ ، عن النبي ﷺ قال : ’’ لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ والواشمۃ والمستوشمۃ ‘‘ ۔ (۲/۸۷۸ ، کتاب اللباس ، باب الوصل في الشعر) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : قولہ علیہ السلام : ’’ من تشبہ بقوم فہو منہم ‘‘ ۔ (ص/۵۵۹ ، کتاب اللباس ، باب في لبس الشہرۃ) ما في ’’ مرقاۃ المفاتیح ‘‘ : قال الطیبي : ہذا عامٌ في الخُلق والخَلق والشعار ، و لما کان الشعار أظہر في الشبہ ذکر في ہذا الباب ، قلت : بل الشعار ہو المراد بالشبہ لا غیر ۔ (۸/۲۲۲ ، کتاب اللباس) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : وفي ’’ الاختیار ‘‘ : وصل الشعر بالشعر بشعر الآدمي حرام ، سواء کان شعرہا أو شعر غیرہا، لقولہ علیہ السلام : ’’ لعن اللّٰہ الواصلۃ والمستوصلۃ ، والواشمۃ والمستوشمۃ ، والواشرۃ والمستوشرۃ ، والنامصۃ والمتنمصۃ ‘‘ ۔ (در مختار) ۔ وفي الشامیۃ: قولہ : (سواء کان شعرہا أو شعر غیرہا) لما فیہ من التزویر ۔۔۔۔۔۔ وفی شعر غیرہا انتفاع بجزء الآدمي أیضاً ، لکن في ’’ التاتارخانیۃ ‘‘ : وإذا وصلت المرأۃ شعر غیرہا بشعرہا فہو مکروہ ۔ (۹/۴۵۴ ، کتاب الحظر والإباحۃ ، فصل في النظر والمسّ) (فتاوی حقانیہ: ۲/۵۳۶، احسن الفتاوی: ۸/۷۵)