محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
سے کوئی چیز وقف کرنے کے علاوہ ہر قسم کے تصرف کی اجازت ہوگی، یعنی وکیل ان تین کاموں کے علاوہ ہر کام مؤکل کی طرف سے اس کا وکیل بن کر، کر سکے گا، البتہ اگر کسی دلیل سے یہ معلوم ہوجائے کہ مؤکل کی طرف سے ان تین کاموں کی اجازت دی گئی ہے، تو پھر وکیل ان تین تصرفات کا بھی مالک ہوجائے گا۔ پہلے اور دوسرے قول میں فرق یہ ہے کہ - پہلے قول کے اعتبار سے اصل یہ ہے کہ وکالت تمام تصرفات وافعال کو شامل ہے، البتہ اگر کسی فعل کو مستثنیٰ کردیا جائے، تو وہ مستثنیٰ ہوجائے گا، اور دوسرے قول کے اعتبار سے اصل یہ ہے کہ مذکورہ افعال عقدِ وکالت میں شامل نہیں، البتہ بعد میں کسی دلیل کے ذریعے ان کو شامل کیا جائے، تو وہ شامل ہوجائیں گے۔ ۳- تیسرا قول یہ ہے کہ اس عمومی وکالت کی وجہ سے وکیل کو صرف عقودِ معاوضہ کرنے کی اجازت ہوگی، باقی معاملات جیسے طلاق، عتاق، ہبہ، وقف اور تبرّعات وغیرہ کرنے کی اجازت نہ ہوگی۔ یہی قول راجح ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : وہو خاص وعام کأنت وکیلي في کل شيء ، عم الکل حتی الطلاق ۔ قال الشہید : وبہ یفتی ۔ وخصہ أبو اللیث بغیر طلاق وعتاق ووقف ، واعتمدہ في ’’ الأشباہ ‘‘ ، وخصہ قاضي خان بالمعاوضات ، فلا یلي العتق والتبرعات وہو المذہب کما في ’’ تنویر البصائر ‘‘ و ’’ زواہر الجواہر ‘‘ ۔ وسیجيء أن بہ یفتی ، واعتمدہ في ’’ الملتقط ‘‘ فقال : وأما الہبات والعتاق فلا یکون وکیلہ عند أبي حنیفۃ خلافاً لمحمد ۔ [در مختار] ۔ وفي الشامیۃ : قال العلامۃ الشامي رحمہ اللہ : واختلفوا في طلاق وعتاق ووقف ، فقیل یملک ذلک لإطلاق تعمیم اللفظ ، وقیل لا یملک ذلک إلا إذا دل دلیل=