محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
مال کم ہو تو جائز ہے(۲)، بینک کی صورتِ حال یہ ہے کہ اس کا مجموعی مال کئی چیزوں سے مرکب ہوتا ہے؛ (۱) اصل سرمایہ،( ۲) ڈپازیٹرز کے پیسے ،( ۳) سود اور حرام کاموں کی آمدنی،(۴) جائز خدمات کی آمدنی، اس سارے مجموعے میں صرف نمبر تین (سود اور حرام کاموں کی آمدنی)حرام ہے، باقی کو حرام نہیں کہا جاسکتا، اور چونکہ ہر بینک میں نمبر ایک(اصل سرمایہ) ونمبردو (ڈپازیٹرز کے پیسے)کی اکثریت ہوتی ہے، اس لیے یہ نہیں کہہ سکتے کہ مجموعے میں حرام غالب ہے، لہٰذا کسی جائز کام کی تنخواہ اس سے وصول کی جاسکتی ہے۔یہ بنیاد ہے جس کی بنا پر علماء نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ بینک کی ایسی ملازمت جس میں خود کوئی حرام کام کرنا نہ پڑتا ہو، جائز ہے، البتہ احتیاط اس میں ہے کہ اس سے بھی اجتناب کیا جائے۔ ‘‘ (۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۱) ما في ’’ الصحیح لمسلم ‘‘ : عن جابر رضي اللّٰہ عنہ قال : ’’ لعن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ﷺ آکل الربا وموکلہ ، وکاتبہ ، وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘ ۔ (۲/۲۷ ، کتاب البیوع) (مشکوۃ المصابیح :ص/۲۴۴ ، باب الربوا ، الفصل الأول ، قدیمي) ما في ’’ شرح النووي علی ہامش مسلم ‘‘ : ہذا تصریح بتحریم کتابۃ المبایعۃ بین المترابیین والشہادۃ علیہما ، وفیہ تحریم الإعانۃ علی الباطل ۔ (۲/۲۷) (۲) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : ولا یجوز قبول ہدیۃ أمراء الجور ، لأن الغالب في مالہم الحرمۃ إلا إذا علم أن أکثر مالہ حلال بأن کان صاحب تجارۃ أو زرع فلا بأس بہ ، لأن أموال الناس لا تخلو عن قلیل حرام فالمعتبر الغالب ، وکذا أکل طعامہم ۔۔۔ آکل الربوا وکاسب الحرام أہدی إلیہ أو أضافہ وغالب مالہ حرام لا یقبل ولا یأکل ما لم یخبرہ أن ذلک المال أصلہ حلال ورثہ أو استقرضہ وإن کان غالب مالہ حلالا لا بأس بقبول ہدیتہ والأکل منہا ۔۔۔ الخ ۔ (۵/۳۴۲ ، ۳۴۳) (۳) ما في’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : طلب الحلال فرض علی کل مسلم ، وقد أمر اللّٰہ تعالی=