محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
عمارت کے ملبہ کی قیمت کا اعتبار ہوگا(۵)، رہی یہ بات کہ! اگر کورٹ میں کیس داخل کیا گیا اور فیصلہ کرایہ دار کے حق میں ہوا، تو بھی کرایہ دار کے لیے اس زمین کا حاصل کرنا شرعاً جائز نہیں ہے، کیوں کہ یہ دوسرے کی زمین پر ناحق قبضہ کرنا ہوگا، جو حرام ہے(۶)، نیز کورٹ کا کرایہ دار کے حق میں فیصلہ کرنے سے اس کے لیے اس زمین پر ملکیت بھی ثابت نہیں ہوگی، کیوں کہ اس صورت میں اسبابِ ملک میں سے کوئی سبب نہیں پایا گیا۔(۷) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۱) ما في ’’ المبسوط للسرخسي ‘‘ : وإن کان استأجرہا کل شہر فلکل واحد منہما أن ینقض الإجارۃ عند رأس الشہر ۔ (۱۵/۱۴۶، باب إجارۃ الدور والبیوت) ما في ’’ التنویر مع الدر والرد ‘‘ : وتنفسخ بموت أحد عاقدین عقدہا لنفسہ ۔ (۹/۹۸، باب فسخ الإجارۃ) (۲) ما في ’’ مشکوۃ المصابیح ‘‘ : عن أبي حرۃ الرقاشي عن محمد قال : قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : ’’ ألا ! لا تظلموا ، ألا ! لا یحل مال امرئ إلا بطیب نفس منہ ‘‘ ۔ (ص/۲۵۵ ، باب الغصب والعاریۃ ، الفصل الأول ، رقم :۲۹۴۶) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وأما شرائط الصحۃ فمنہا : رضا المتعاقدین ۔ (۴/۴۱۱ ، کتاب الإجارۃ ، الباب الأول) ما في ’’ الکافي في الفقہ الحنفي ‘‘ : والبیع شرعاً : مبادلۃ المال بالمال بالتراضي ۔۔۔۔۔ فإذا فقد التراضي بأن المکرہ عقارہٗ خوفاً علی نفسہ فالبیع فاسد وموقوف ، فإن قبل البائع وقبض الثمن انقلب نافذاً ۔ (۳/۱۰۸۸، ۱۰۸۹، کتاب البیوع ، مکتبۃ مؤسسۃ الرسالۃ بیروت) (۳) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوا لا تأکلوا أموالکم بینکم بالباطل إلٓا أن تکون تجارۃ عن تراض منکم} ۔ (سورۃ النساء :۲۹) ما في ’’ الفتاوی الہندیۃ ‘‘ : وأما شرائط الصحۃ فمنہا ؛ رضا المتعاقدین ، ومنہا ؛ أن تکون الأجرۃ معلومۃ ۔ (۴/۴۱۱ ، کتاب الإجارۃ ، الباب الأول في تفسیر الإجارۃ)=