محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
خریدی نہیں جاتی ہیں، اگر مشتری کو خریدنے کے بعد کاغذات کے جعلی ہونے کا علم ہوجائے، اور وہ ایسی گاڑی کے لینے پر رضامند نہیں ہے، تو اس کو واپس کرنے کا حق حاصل ہوگا، اور بائع پر لازم ہے کہ وہ مشتری کو مبیع لوٹانے کے بعد پوری قیمت واپس کردے(۲)، اور اگر مشتری نے عیب کے جاننے کے بعد بھی بیع پر رضامندی ظاہر کردی، تو ایسی صورت میں مشتری کا واپس کرنے کا حق ختم ہوجائے گا۔ (۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۱) ما في ’’ جامع الترمذي ‘‘ : ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مرّ علی صبرۃ طعام فأدخل یدہ فیہا فنالت أصابعہ بللاً فقال : یا صاحب الطعام ! ما ہذا ؟ قال : أصابتہ السماء یا رسول صلی اللہ علیہ وسلم للّٰہ ! قال : أفلا جعلتہ فوق الطعام حتی یراہ الناس ، ثم قال : ’’ من غشّ فلیس منّا ‘‘ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والعمل علی ہذا عند أہل العلم کرہوا الغش وقالوا : الغشّ حرام ۔ (۱/۲۴۵، أبواب البیوع ، باب ما جاء فی کراہیۃ الغشّ) (۲) ما في ’’ الفقہ الإسلامی وأدلتہ ‘‘ : العیب : ہو کل ما یخلو عنہ أصل الفطرۃ السلیمۃ ویوجب نقصان الثمن فی عرف التجار نقصاناً فاحشاً أو یسیرًا کالعمی والعور والحول ۔ (۵/۳۵۵۸ ، المطلب الثاني - العیوب الموجبۃ للخیار) وما في ’’ الفقہ الإسلامي وأدلتہ ‘‘ : خیار الوصف ، أو خیار فوات الوصف المرغوب فیہ : ہو في مذہب الحنفیۃ : أن یکون المشتري مخیرا بین أن یقبل بکل الثمن المسمی أو أن یفسخ البیع حیث فات وصف مرغوب فیہ ، فی بیع شيء غائب عن مجلس العقد ، مثالہ أن یشتری شیئًا یشترط فیہ صفۃ معینۃ غیر ظاہرۃ ، وإنما تعرف بالتجربۃ ، ثم یتبین عدم وجودہا ۔۔۔۔۔ أو یشتري بقرۃ علی أنہا حلوب ، فظہرت غیر حلوب ، أو یشتري جوہرۃ علی أنہا أصلیۃ ، فظہرت أنہا تقلید صناعي للأصلیۃ ، فیکون المشتري مخیرا إن شاء فسخ البیع ، وإن شاء أخذ المبیع بجمیع الثمن المسمی ؛ لأن ہذا وصف مرغوب فیہ ۔ (۵/۳۵۲۰ ، خیار الوصف) (۳) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : (رضا بالعیب) ۔۔۔۔۔۔۔ وکذا کل مفید رضا بعد العلم بالعیب یمنع الرد ۔ (۷/۱۵۲، کتاب البیوع ، باب العیب ، دیوبند)