محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ہوجاتا ہے، تو چوں کہ اس صورت میں مبیع اور ثمن دونوں متعین ہوتے ہیں، اور ہر خریدار کو اپنی مبیع حاصل ہوتی ہے، دکانیں اپنے منافع میں سے انعام دیتی ہیں، لہٰذا بیع کی یہ صورت جائز ہے، البتہ بیع کی یہ صورت اُس وقت مکروہ ہوگی جب کہ مشتری کو مبیع کی ضرورت نہ ہو، اور وہ محض انعام کی طمع اور لالچ میں اس چیز (چاکلیٹ وغیرہ) کو خریدے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ فقہ وفتاوی البیوع ‘‘ : الصورۃ الأولی أن یقول التاجر : من اشتری مني بألف مثلا فلہ جائزۃ مقدارہا کذا ، فہنا الجائزۃ معلومۃ والقدر معلوم ، فہذا لیس فیہ محظور من حیث الشکل الظاہر ، لکن قد یکون فیہ محظور من جہۃ المشتری ، فربما یشتری ما تبلغ قیمۃ الألف ولیس لہ حاجۃ کاملۃ فیما اشتراہ ، ولکن من أجل الجائز فیضیع مالہ طالبًا للحصول علی ہذہ الجائزۃ ۔ (ص/۲۸۱) ما في ’’ نوازل فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : بناء علی تعین المبیع والثمن ، وحصول کل مشتری علی مبیعۃ المطلوب وتوزیع الجوائز من قبل الشرکات من مکاسبہا الخاصۃ ، یجوز ہذا العمل ولو کان العوض الحاصل لأحد الجانبین مجہولا أو محتملا ، ویتلقی الواحد ویحرم الثانی یکون ذلک نوعًا من المیسر ویحرم ، لکن الصورۃ المذکورۃ ہي ’’ إحقاق بعض وإنجاح بعض ‘‘ حسب قول الجصاص غیر شاملۃ للمیسر والقمار ، فلا بأس فیہا ، وہذا ہو رأي العلامۃ المفتي محمد شفیع من کبار علماء ہذا العصر ، ولا یخفی علینا أن ہذا الحکم للمسئلۃ ہو باعتبار صورتہا الظاہرۃ ، وإلا فإن وراء ہذا العمل الإغرائي تکمن نفس الفکر والنظریۃ التي تعمل في القمار والمیسر ، فعلی المسلمین المحاولۃ لا إحباط ہذہ الظاہرۃ وتشبیطہا فإنہا لا تخلو من الکراہۃ رغم جوازہا ۔ (ص/۲۲۷ ، ۲۲۸، مکتبۃ الصحوۃ الکویتیۃ) (جواہر الفقہ: ۲/۳۴۵، جدید فقہی مسائل: ۴/۲۷۵، کتاب الفتاوی: ۵/۲۴۷)