محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
خالد سے اس کا مطالبہ نہیں کرسکتا،کیوں کہ یہ عین کا نقصان نہیں بلکہ متوقع نفع کا نقصان ہے، جس کو شریعت نقصان نہیں گردانتی(۱)، البتہ اگر خالد شروع ہی سے اپنے اِس وعدے کوپورا نہ کرنے کی نیت رکھتا ہے، تو وہ اخروی اعتبار سے گنہگار ہے(۲)، اور اگر خریدنے کی نیت تھی مگر کسی مجبوری کی وجہ سے نہ خرید سکا، تو وہ معذور ہے، جس میں گناہ بھی لازم نہیں ہوگا۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : الضرر إسم من الضر ، وقد أطلق علی کل نقض یدخل الأعیان ، والضر بفتح الضاد ، لغۃ ضد النفع وہو النقصان ۔ (۲۸/۱۷۹ ، تحت الضرر) (۲) ما في’’ القرآن الکریم ‘‘ :{یا أیہا الذین اٰمنوا أوفوا بالعقود} ۔ (سورۃ المائدۃ : ۱) ما في ’’ فتح القدیر للشوکاني ‘‘ :والعقود العہود ۔۔۔۔۔ وقیل : ہي العقود التي یعقدونہا بینہم من عقود المعاملات ۔۔۔ قال الزجاج : المعنی أوفوا بعقد اللہ علیکم وبعقدکم بعضکم علی بعض ۔ انتہی ۔ (۱/۴۴۴) ما في ’’ التفسیر المنیر ‘‘ : {أوفوا بالعقود} أي العہود التي عقدتموہا بینکم وبین اللہ ، أو بینکم وبین الناس ، وہي التکالیف التي ألزمکم اللہ بہا والتزمتموہا ۔۔۔۔۔ الأمر بالوفاء بالعقد التي یتعاقد بہا الناس ، ووجوب الوفاء بالتکالیف الإسلامیۃ ، فیلزم دفع أثمان المبیعات ۔۔۔ یدل علی لزوم العقد وثبوتہ ۔ (۳/۴۱۵ ۔ ۴۱۹) ما في ’’ صحیح البخاري ‘‘ : عن أبي ہریرۃ رضي اللہ عنہ ، عن النبي ﷺ قال : ’’ آیۃ المنافق ثلاث : إذا حدث کذب ، وإذا وعد أخلف ، وإذا اؤتمن خان ‘‘ ۔ (ص/۳۱ ، کتاب الإیمان ، باب علامۃ المنافق ، رقم الحدیث : ۳۳) ما في’’ فیض الباري ‘‘ :وفي خلف الوعد عندنا قولان : الأول : أنہ مکروہ کراہۃ تحریم ، والثاني : کراہۃ تنزیہ ۔۔۔۔ بل الأمر عندي أن یقسم علی الأحوال ، فإن أراد الاخلاف عند الوعد کرہ تحریماً ، وإن أراد الانجاز ثم منعہ مانع لا یکون مکروہاً ۔ (۱/۱۹۹ ، کتاب =