محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
وقت شی ٔ مرہون پر قبضہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے، اس لیے کہ شئ مرہون کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنے میں بڑے اخراجات ہوتے ہیں۔ ایسی صورت میں دین کی توثیق کی ’’ رہن سائل ‘‘ کے علاوہ کوئی دوسری صورت نظر نہیں آتی، لہٰذا اس کے اندر حصر اور تضییق کی ضرورت نہیں، اور ظاہراً یہ جائز ہے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الفقہ الحنفي في ثوبہ الجدید ‘‘ : الرہن شرعاً : حبس الشيء بحق یمکن أخذہ منہ کالدین ۔۔۔۔۔۔ وقولہ : (یمکن استیفاؤہ منہ) أی یمکن استیفاء الحق من الرہن ۔ (۴/۴۴۱ ، الرہن) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : الرہن شرعاً : جعل عین مالیۃ وثیقۃ بدین یستوفي منہا أو من ثمنہا إذا تعذر الوفاء ۔ (۲۳/۱۷۵، رہن) ما في ’’ بحوث في قضایا فقہیۃ معاصرۃ ‘‘ : الرہن السائل : وہناک نوع آخر من الرہن یوجد في قوانین کثیر من البلاد الإسلامیۃ ، لا یقبض فیہ المرتہن علی الشيء المرہون ، وإنما یبقی بید الراہن ، ولکن یحق للدائن إذا قصر الدین في الأداء ، أن یطالب بیعہ استیفاء لدینہ من حصیلۃ بیعہ ، وہذا النوع من الرہن یسمی أحیاناً ’’ الرہن الساذج ‘‘ (Simple Mortgage) وأحیاناً ، ’’ الذمۃ السائلۃ ‘‘ (Floating Charge) وہذا مثل أن یرہن الدین سیارتہ لدی الدائن ، ولکن تبقی السیارۃ بید الدین الراہن ، یستعملہا لصالحہ کیف یشاء ، ولکن لا یجوز لہ نقل ملکیتہا إلی شخص ثالث حتی یفتک الرہن السائل بتسدیل الدین ، ویثبت للدائن المرتہن حق فی بیعہا إذا قصر صاحبہا في أداء دینہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ولکن ہہنا ملاحظ أذکرہا لتأمل الفقہاء المعاصرین ، وہي : ۱- إن المرتہن في (الرہن السائل) وإن کان لا یقبض الشيء المرہون ولکنہ في عموم الأحوال یقبض علی مستندات ملکیتہ ۔۔۔۔۔۔۔ ۲- إن علۃ اشتراط القبض في الرہن ، کما ذکرہ الفقہاء ، ہو تمکن المرتہن من استیفاء دینہ ببیع ذلک الشيء عند الحاجۃ ، وإن ہذا المقصود حاصل في (الرہن السائل ) علی أساس مشروط الاتفاقیۃ المعترف بہا قانوناً ، فیحتمل یکون القبض الحسي غیر لازم في الصورۃ المذکورۃ ، لحصول المقصود بہذہ المشروط المقررۃ ۔ ۳- المقصود =