محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
جانے والی اجرت مرمت کے کام اور زائد پُرزوں دونوں کے لیے ہوگی۔ مگر اس صورت پر یہ اِشکال وارد ہوتا ہے کہ احادیث میں ’’ صفقتان في صفقۃ ‘‘ یعنی ایک عقد کے اندر دو معاملات کرنے سے منع کیا گیا ہے، جیسا کہ مشہور روایت میں ہے کہ: ’’ نہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ ﷺ عن صفقتین في صفقۃ ‘‘ ’’ رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ انے ایک عقد کے اندر دو معاملات سے منع فرمایا۔‘‘ (مسند ا حمد بن حنبل:۱/۳۹۸) تو کیا اس حدیث کی بنیاد پر یہ عقد ناجائز نہیں ہوجاتا؟ … جواب سے پہلے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ شریعت کا ضابطہ یہ ہے کہ ایک عقد کے اندر دو معاملات پائے جانے کی ممانعت اُس وقت ہے، جب ایک معاملہ دوسرے معاملے کے ساتھ مشروط ہو، مثلاً کوئی شخص یوں کہے کہ میں تم سے فلاں مشینری اس شرط پر خریدتا ہوں کہ تم مجھ سے یہ مشینری کرایہ پر حاصل کروگے، لیکن اگر دو معاملات ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہ ہوں بلکہ فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کے ساتھ دوسرا معاملہ کرنے میں آزاد ہو، تو پھر یہ عقد ناجائز نہیں۔ اِس تفصیل کی روشنی میں اُس کا جواب یہ ہوگا کہ اگر عقدِ صیانہ میں دونوں عقد (بیع اور اِجارہ) ایک دوسرے کے ساتھ مشروط نہیں، تو پھر یہ صورت جائز ہے، اور اگر مشروط ہوں، تو پھر یہ عقد جائز نہ ہوگا، اور اس کی جائز صورت یہ ہوگی کہ ایک عقد دوسرے کے ساتھ نہ ہو(الگ ہو) اور کام کرنے والا شخص (صاحب العمل) صائن (Maintainer) کو عمل کے وقت الگ عقد کے ذریعے مطلوبہ اشیاء بازار سے خریدنے کا وکیل بنادے۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : الأجیر الخاص ہو من یعمل لمعین عملاً مؤقتاً ویکون=