محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
تو زید نے سوچا کہ ابھی گندم فروخت کردوں اور جب قیمت کم ہوگی، تو دوبارہ خرید لوں گا، اس نے بکر سے کہا کہ میں دس روپئے فی کیلو کے حساب سے دو مہینے کی ادائیگی پر پچاس من گندم تمہیں فروخت کرتا ہوں، حالانکہ اس کے پاس گندم بالکل نہیں، بکر نے اسی تاریخ پر ساڑھے دس روپئے فی کلو کے حساب سے یہ گندم خالد کو فروخت کردیا، اسی طرح سَودے ہوتے رہیں، جب ادائیگی کا وقت آیا تو سب نے مل کر حساب کیا کہ اس خرید وفروخت کے نتیجہ میں کس کو کتنا نقصان اور کتنا نفع ہوا، اور پھر اسی حساب سے لین دین کرلیا، اس عمل کو ’’ ڈیفرینس برابر کرنا‘‘ کہتے ہیں۔ (۱) سٹہ کی حقیقت پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس میں دو خرابیاں پائی جاتی ہیں: ۱- غیر مملوک کی بیع(جو چیز ملک میں نہیں اُسے بیچنا)، عام طور پر بیچی جانے والی چیز (مثلاً شیئر یا گندم وغیرہ) فروخت کرنے والے شخص کے پاس مبیع(بیچی جانے والی چیز) موجود نہیں ہوتی، لیکن وہ اسے اس امید پر آگے فروخت کرتا ہے کہ جب دینے کا وقت آئے گا، تو وہ اس وقت بازار سے خرید کر آگے دیدے گا، تو اس طرح یہ غیر مملوک کی بیع بن جاتی ہے، جو کہ شرعاً ممنوع ہے۔(۲) ۲- بیع قبل القبض(کسی چیز پر قبضہ سے پہلے اُسے آگے فروخت کرنا) ، اس کے ساتھ ساتھ سٹہ کے جو معاملات ہوتے ہیں، وہ بیع قبل القبض کی صورت میں ہوتے ہیں کہ اس چیز پر قبضہ ہونے سے پہلے ہی وہ معاملات مکمل ہوجاتے ہیں۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجس من عمل=