محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
حنفیہ کے نزدیک بیع کی یہ شکل چند شرائط کے ساتھ جائز ہے،مثلاً:ہم جنس اشیاء کے درمیان نہ ہو،جیسے گندم کی بیع گندم سے، البتہ اگر مقدار اتنی قلیل ہو کہ عام طور پر تولنے کے پیمانہ کے تحت نہ آتی ہو، جس کی مقدار نصف صاع بیان کی گئی ہے، تو اس صورت میں ہم جنس کے درمیان بھی بیع جائز ہے، اور بیع سلم کے اندر بطور رأس المال کوئی چیز اٹکل سے نہ دی جائے، اس لیے کہ اس میں اس بات کا امکان ہوتا ہے کہ یہ معاملہ فسخ ہوجائے، اور ایسی صورت میں بائع (مسلم إلیہ) کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ اصل رأس المال واپس کرے ، لہٰذا اگر یہ رأس المال کی مقدار معلوم نہ ہو، تو اسے واپس کرنے میں دشواری پیش آئے گی، اور جس چیز کی اٹکل سے بیع کی جارہی ہے، وہ سامنے موجود ہو، نظر آرہی ہو، اگر نظر نہیں آرہی، تو اس کی بیع مجازفۃً(اٹکل سے) جائز نہیں، لہٰذا نابینا شخص کی ’’بیع المجازفۃ‘‘ جائز نہیں، کیوں کہ وہ اس چیز کو دیکھ نہیں سکتا۔(۱) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۲) ما في ’’ عمدۃ القاري ‘‘ : قولہ : مجازفۃ : ہو البیع بلا کیل ولا وزن وتقدیر ۔ (۱۱/۳۵۶ ، کتاب البیوع ، باب :۵۴) (۱) ما في ’’ التنویر وشرحہ مع الشامیۃ ‘‘ : (وصح بیع الطعام کیلا وجزافًا إذا کان بخلاف جنسہ ، ولم یکن رأس مال سلم أو کان بجنسہ وہو دون نصف صاع) ۔ تنویر وشرحہ ۔ وفي الشامیۃ : قال الشامي رحمہ اللہ : (الشرطیۃ معرفتہ) لاحتمال أن یتفاسخا السلم فیرید المسلم إلیہ دفع ما أخذ ولا یعرف ذلک إلا بمعرفۃ القدر ۔ (۷/۴۶ ، کتاب البیوع ، مطلب مہم فی حکم الشراء) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : ویجوز بیع الطعام والحبوب مکایلۃ ومجازفۃ ، وہذا إذا باعہ بخلاف جنسہ لقولہ علیہ الصلاۃ والسلام : ’’ إذا اختلف النوعان فبیعوا کیف شئتم من احتمال الربوا۔ (۳/۲۲ ، کتاب البیوع ، المکتبۃ الإسلامیۃ) ما في ’’ فتح القدیر لإبن الہمام ‘‘ : (والحبوب) ۔۔۔۔۔ (مکایلۃ) ۔۔۔۔۔ (مجازفۃ) أی بلا کیل ولا وزن بل باراء ۃ الصبرۃ ۔ (۶/۲۴۴، کتاب البیوع) (غرر کی صورتیں:ص/۲۴۷)