محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
اندازی کے ذریعے کسی ایک کو دی گئی، معلوم ہوا کہ دیئے جانے والے سود میں قمار کا طریقۂ کار اور اس کی روح موجود ہے، اور چوں کہ سود شرعاً غیر معتبر وباطل ہے(۱)، لہٰذا اس قمار کو فقہی اصطلاح کے مطابق قمار نہیں کہیں گے(۲)۔انعامی بانڈز کا یہ معاملہ سودی معاملہ ہے، لہٰذا اس کی خرید وفروخت شرعاً جائز نہیں ہوگی۔(۳) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {یٰٓاَیہا الذین اٰمنوا لا تأکلوا الربوا أضعافاً مضاعفۃ} ۔ (سورۃ آل عمران : ۱۳۰) ما في ’’ صحیح مسلم ‘‘ : عن جابر قال : ’’ لعن رسول صلی اللہ علیہ وسلم للہ ﷺ آکل الربا وموکلہ وکاتبہ وشاہدیہ ، وقال : ہم سواء ‘‘ ۔ (۲/۲۷) ما في ’’ الدر المختار مع الشامیۃ ‘‘ : الربا شرعاً : فضل خال عن عوض بمعیار شرعي مشروط لأحد المتعاقدین في المعاوضۃ ۔ (۷/۳۰۲) (۲) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {إنما الخمر والمیسر والأنصاب والأزلام رجسٌ من عمل الشیطٰن فاجتنبوہ} ۔ (سورۃ المائدۃ :۹۰) ما في ’’ سنن أبي داود ‘‘ : عن عبد اللّٰہ بن عمرو أن نبي اللّٰہ ﷺ ’’ نہی عن الخمر والمیسر والکوبۃ والغبیراء ‘‘ ۔ (ص/۵۱۹ ، رقم :۳۶۸۷ ، باب النہي عن المسکر) ما في ’’ رد المحتار‘‘ : لأن القمار من القمر الذی یزداد تارۃً وینقص أخریٰ ، وسمی القمار قمارًا ، لأن کل واحد من المقامرین ممن یجوز أن یذہب مالہ إلی صاحبہ ، ویجوز أن یستفید مال صاحبہ وہو حرام بالنص ۔ (۹/۴۹۲) (۳) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولا تعاونوا علی الإثم والعدوان} ۔ (سورۃ المائدۃ :۲) (جدید معاملات کے شرعی احکام:۱/۹۸،۹۹)