محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
ساتھ وعدۂ بیع کا معاملہ ہوچکا ہے، اور جب وہ سامان تیار ہو کر ایکسپورٹر کے قبضہ میں آگیا ،اس وقت اس نے خریدار یعنی امپورٹر کی طرف روانہ کردیا، تو جس وقت ایکسپورٹر وہ سامان شپنگ کمپنی کے حوالے کردے، تو یہ حوالہ کردینا بیع تعاطی کے طور پر ایجاب وقبول سمجھا جائے گا، اور بیع منعقد ہوجائے گی، اور بیع منعقد ہونے کے ساتھ ساتھ اس سامان پرخریدار کا قبضہ بھی ہوجائے گا، اس لیے کہ شپنگ کمپنی بحیثیت خریدار کے وکیل کے اس سامان پر قبضہ کرتی ہے، لہٰذا اس سامان کا ضمان (رسک) بھی خریدار (امپورٹر) کی طرف منتقل ہوجائے گا، اور حقیقی بیع منعقد ہوجائے گی۔(۲) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : أما رکن البیع فہو مبادلۃ شيء مرغوب بشيء مرغوب ، وذلک قد یکون بالفعل وقد یکون بالفعل ، أما القول فہو المسمی بالإیجاب والقبول في عرف الفقہاء ۔۔۔۔۔۔۔ أما بصیغۃ الماضي فہي أن یقول البائع : بعت، ویقول المشتري : اشتریت ، فیتم الرکن ۔۔۔۔۔۔ وکذا إذا قال البائع : خذ ہذا الشيء بکذا، أو اعطیتکہ بکذا ، أو ہو لک بکذا ، أو بذلتکہ بکذا ، وقال المشتري : قبلت أو أخذت أو رضیت أو ہویت ونحو ذلک ، فإنہ یتم الرکن ، لأن کل واحد من ہذہ الألفاظ یؤدي معنی البیع، وہو المبادلۃ والعبرۃ للمعنی لا للصورۃ ۔ (۴/۳۱۸) (۲) ما في ’’ الموسوعۃ الفقہیۃ ‘‘ : واصطلاحاً : التعاطي في البیع ، ویقال فیہ أیضاً المعاطاۃ أن یأخذ المشتري المبیع ، ویدفع للبائع الثمن ، أو یدفع البائع للمبیع فیدفع لہ الآخر الثمن من غیر تکلم ولا إشارۃ ۔۔۔۔۔۔ اختلف الفقہاء في انعقاد البیع التعاطي ، فذہب الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ ، وفي قول الشافعیۃ إلی جواز البیع بالتعاطي ۔۔۔۔۔ وبیع المعاطاۃ صورتان : الأولی ؛ أن یتم التعاطي من غیر تکلم ولا إشارۃ من أحد الطرفین ، وہو جائز عند الحنفیۃ والمالکیۃ والحنابلۃ ، ورجح النووي الجواز بخلاف المذہب ۔ (۱۲/۱۹۸) ما في ’’ الہدایۃ ‘‘ : فإن ہلک المبیع في یدہ قبل حبسہ ، ہلک من مال المؤکل ، ولم یسقط الثمن ، لأن یدہ کید المؤکل ۔ (۲/۱۸۲ ، کتاب الوکالۃ ، رد المحتار : ۴/۱۱ ، نعمانیہ) ما في ’’ جمہرۃ القواعد الفقہیۃ ‘‘ : ’’ فعل الوکیل کفعل المؤکل ‘‘ ۔ [۲/۸۰۰] ۔ ’’ قبض الوکیل یقوم مقامہ قبض مؤکلہ ‘‘ ۔ (۲/۸۰۳) (اسلام اور جدید معاشی مسائل: ۳/۲۰۳)