محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
نوٹ بھی احکام میں ثمنِ حقیقی کے مشابہ ہے، لہٰذا ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ اسی ملک کی کرنسی کے ساتھ کمی وبیشی کے ساتھ نہ تو نقد جائز ہے نہ ادھار۔(۴) ۳- دو ملک کی کرنسیاں دو اجناس ہیں، اس لیے ایک ملک کی کرنسی کا تبادلہ دوسرے ملک کی کرنسی سے کمی وبیشی کے ساتھ حسبِ رضاء فریقین جائز ہے ۔ (۵) ۴- کرنسی نوٹو ں پر زکوٰۃ لازم ہے ۔ (۶) ۵- نوٹوں میں زکوٰۃ کا نصاب چاندی کے نصاب کی قیمت کے مساوی ہو گا ۔ ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : (۱) ما في ’’ فقہ وفتاوی البیوع ‘‘ : وإذا اتحد جنس العملات ، کالذہب بالذہب ، والفضۃ بالفضۃ ، والریال السعودي مثلاً بالریال السعودي ، والمصري بالمصري ، وجب شیئان : التساوي في المقدار ، والتقابض في مجلس العقد ، فإن اختل الشرطان أو أحدہما کان رباً ۔ (ص/۲۸۶ ، حکم تجارۃ العملۃ) ما في ’’ تکملۃ فتح الملہم ‘‘ : إن المختار عندنا قول من یجعلہا أثمانا اصطلاحیۃ ، وحینئذٍ تجري علیہا أحکام الفلوس النافقۃ سواء بسواء ، وقدمنا آنفاً أن مبادلۃ الفلوس بجنسہا لا یجوز بالتفاضل عند محمد رحمہ اللہ تعالی، وینبغي أن یفتی بہذا القول في ہذا الزمان سداً لباب الربا ، وعلیہ فلا یجوز مبادلۃ الأوراق النقدیۃ بجنسہا متفاضلۃ ، ویجوز إذا کانت متماثلۃ ، والمماثلۃ ہہنا تکون بالقیمۃ ۔ (۱/۵۹۰ ، حکم أوراق النقدیۃ) (۲) ما في ’’ فقہ وفتاوی البیوع ‘‘ : وإن اختلف جنس العملات ، کأن باع ذہباً بالفضۃ ، أو ریالاً سعودیاً بجنیہ مصري مثلاً ، وجب شيء واحد ، وہو التقابض في مجلس العقد ، وجاز التفاضل ، لقولہ ﷺ : ’’ الذہب بالذہب ، والفضۃ بالفضۃ ، مثلاً بمثلٍ ، سواء بسواء ، یداً بیدٍ ، فإن اختلف ہذہ الأجناس فبیعوا کیف شئتم ، إذا کان یداً بید ‘‘ ۔ الحدیث ۔ (ص/۲۸۶ ، حکم تجارۃ العملۃ)=