محقق و مدلل جدید مسائل جلد 1 |
|
قائم کریں، اور اپنے نزاعات ومعاملات میں ان کی طرف رجوع کریں۔ (۳) ۳- طلاق چوں کہ ابغض المباحات ہے، اس لیے اسے اختیار کرنے سے پہلے پورے طور پر مصالَحت اور نباہ کی صورت نکالنی چاہیے، اور حتی الامکان طلاق وخلع سے بچنے کی کوشش کی جانی چاہیے۔(۴) ۴- غیر مسلم ممالک کی عدالت میں شوہر قانونی مجبوری کے تحت غیر مسلم جج کو درخواست دیتا ہے کہ میرا رشتۂ نکاح ختم کردیا جائے، اور جج تفریق کا فیصلہ کرتا ہے، تو جج کے فیصلۂ تفریق کو طلاقِ بائن ما نا جائے گا، البتہ بہتر ہے کہ عدالت کے فیصلے کے بعد شوہر اپنی زبان سے بھی الفاظ کہہ دے۔(۵) ۵- اگر غیر مسلم ممالک کی عدالت میں غیر مسلم جج کے سامنے عورت رشتۂ اِزدِواج کو ختم کرنے کے لیے درخواست دیتی ہے، اور غیر مسلم جج اس کی درخواست پر شوہر کی اجازت سے تفریق کا فیصلہ کرتا ہے تو معتبر ہے، ورنہ یہ تفریق شرعاً معتبر نہیں ہوگی، ایسی صورت میں عورت یا تو شوہر سے خلع حاصل کرے، یا دارالقضاء وشرعی پنچایت کے ذریعہ نکاح فسخ کرائے۔(۶) ------------------------------ الحجۃ علی ما قلنا : =(۱) ما في ’’ القرآن الکریم ‘‘ : {ولن یجعل اللّٰہ للکٰفرین علی المؤمنین سبیلاً } ۔ (سورۃ النساء :۲۴۱) ما في ’’ بدائع الصنائع ‘‘ : وأما بیان من یصلح للقضاء فنقول : الصلاحیۃ للقضاء لہا شرائط : منہا العقل ، ومنہا البلوغ ، ومنہا الإسلام ۔ (۹/۸۵ ، کتاب أدب القاضی) (۲) ما في ’’ رد المحتار ‘‘ : قولہ : (ویشترط کونہ مسلمًا ۔ الخ) أي لأن الکافر لا یلي علی=