تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
لیا ہو یاکسی سے رشوت لی ہو یا کسی کے مال میں خیانت کی ہو، یا کسی کی کوئی چیز مذاق میں لے کر رکھ لی ہو (جب کہ وہ اس کے دینے پر اپنے نفس کی خوشی سے راضی نہ ہو) یا کسی سے سود لیا ہو تو ان سب کو واپس کردے، واپس کرنے کے لیے یہ بتانا ضروری نہیں کہ میں نے آپ کی خیانت کی تھی، ہدیہ کے نام سے دینے میں بھی ادائیگی ہوجائے گی۔ آبرو کے حقوق کی تلافی کا مطلب یہ ہے کہ اگر کسی کو ناحق مارا ہو یا کسی کی غیبت کی ہو یا سنی ہو یا کسی کی تہمت لگائی ہو یاگالی دی ہو یا کسی بھی طرح جسمانی یا روحانی یا قلبی تکلیف پہنچائی ہو تو اس سے معافی مانگ لے۔ اگر وہ دور ہو تو اس دوری کو عذر نہ سمجھے، بلکہ خود جاکر خط بھیج کر معافی طلب کرے، اور جس طرح ممکن ہو اس کو راضی کرے، اگر ناحق مارپیٹ کا بدلہ دینا پڑے تو اسے بھی گوارا کرے، البتہ غیبت کے بارے میں اکابر نے یہ لکھا ہے کہ اگر اس کو غیبت کی اطلاع پہنچ چکی ہے تو اس سے معافی مانگے، ورنہ اس کے لیے بہت زیادہ مغفرت کی دعا کرے، جس سے یہ یقین ہو جائے کہ جتنی غیبت کی تھی اس کے بدلہ اس کے لیے اتنی دعا ہوچکی ہے کہ اس کی دعا کو دیکھتے ہوئے وہ ضرور خوش ہوجائے گا۔ بہت سے لوگ ظاہری دینداری بھی اختیار کرلیتے ہیں، زبانی توبہ بھی کرتے رہتے ہیں، لیکن گناہ نہیں چھوڑتے، حرام کمائی سے باز نہیں آتے، اور لوگوں کی غیبت کو شیرماد رسمجھتے ہیں اور ذرا بھی دل میں احساس نہیں ہوتا کہ ہم غیبتیں کررہے ہیں، بس اب دینداری نماز روزہ کی حد تک رہ گئی ہے۔ صرف زبانی توبہ کرنا اور گناہ نہ چھوڑنا اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کی تلافی نہ کرنا یہ کوئی توبہ نہیں ہے۔ جو لوگ رشوت لیتے ہیں یا سود لیتے ہیں یا کاروبار میں فریب دے کر ناجائز طور پر پیسہ کھینچ لیتے ہیں، ایسے لوگوں کا معاملہ بہت کٹھن ہے، کس کس کے حق کی تلافی کریں گے، اہل حقوق کو یاد رکھنا اور ان کے حقوق کی تلافی کرنا اور حقوق والوں کو تلاش کرکے حقوق پہنچانا گویا پہاڑ کھودنے کے برابر ہے، لیکن جن کے دل میں آخرت کی فکر اچھی طرح جاگزیں ہوجائے وہ بہرحال حقوق والوں کے حقوق کسی نہ کسی طرح پہنچا کر ہی رہتے ہیں۔ ہمارے ایک استاد ایک تحصیلدار کا قصہ سناتے تھے، جب وہ حضرت اقدس حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ سے مرید ہوئے اور دینی حالت سدھرنے لگی اور آخرت کی فکر نے ادائیگی حقوق کی طرف متوجہ کیا تو انھوں نے اپنے زمانہ تعیناتی میں جو رشوتیں لی تھیں ان کو یاد کیا اور حساب لگایا، عموماً (تقسیم ہند سے قبل) متحدہ پنجاب کی تحصیلوں میں وہ تحصیلداری پر مامور رہے تھے اور جن لوگوں سے رشوتیں لی تھیں ان میں زیادہ تر سکھ قوم کے لوگ تھے۔ انھوں نے تحصیلوں میں جاکر مقدمات کی پرانی فائلیں نکلوائیں، اور ان کے ذریعہ مقدمات لانے والوں کے پتے لیے، پھرگائوں گائوں ان کے گھر پہنچے اور بہت سوں سے معافی مانگی اور بہت سوں کو نقد رقم دے کر سبکدوشی حاصل کی، ان تحصیلدار