تحفہ خواتین - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع |
|
اور اللہ جل شانہٗ کا ارشاد ہے : وَلاََ تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلاََلٌ وَّھٰذَا حَرَامٌ لِتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لاََیُفْلِحُوْنَ۔ (سورہ نحل) ’’اور جن چیزوں کے بارے میں محض تمہارا جھوٹا زبانی دعویٰ ہے ان کی نسبت یوں مت کہہ دیا کرو کہ فلانی چیز حلال ہے اور فلانی چیز حرام ہے جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگادو گے، بلاشبہ جو لوگ اللہ پر جھوٹ لگاتے ہیں وہ فلاح نہ پائیں گے۔ ‘‘ اس آیت میں اس بات کی مذمت کی گئی ہے کہ اپنی جانب سے حلال و حرام تجویز کرلیا جائے، جو چیز اللہ جل شانہٗ کی جانب سے حلال ہے وہ حلال ہی رہے گی۔ محرم کا مہینہ ہو یا کوئی بھی دن ہو اور جو شے حرام ہے حرام ہی رہے گی، بندوں کو حلال یا حرام قرار دینے کا کوئی اختیار نہیں۔ اللہ جل شانہٗ سمجھ دے اور عمل کی توفیق دے۔طلاق ہوجائے تو بچوں کی پرورش کون کرے : (۱۵۵) وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ عَبْدِاللّٰہِ ْبنِ عَمْرِوَاَنَّ امْرَأَۃً قَالَتْ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ اِنَّ ابْنِیْ ھٰذَا کَانَ بَطْنِیْ لَہٗ وَعاَئً وَ َثدْیِیْ لَہٗ سِقَائً وَحَجْرِیْ لَہٗ حِوَائً۔۔۔۔۔۔ وَاِنَّ اَباَہُ طَلَّقَنِیْ وَاَرَادَ اَنْ یَّنْزِعَہٗ مِنِّیْ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَنْتِ اَحَقُّ بِہٖ مَالَمْ تَنْکِحِیْ۔ (رواہ احمد و ابودائود) ’’حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ ایک عورت نے عرض کیا۔ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک یہ جو میرا بیٹا ہے میرا پیٹ اس کے لیے برتن رہ چکا ہے اور میری چھاتی اس کے لیے مشکیزہ رہی ہے (جس سے یہ دودھ پیتا رہا ہے) اور میری گود اس کے لیے حفاظت کی جگہ رہی ہے اور اب ماجرا یہ ہے کہ اس کے باپ نے مجھے طلاق دے دی ہے اور اس کو مجھ سے علیحدہ کرنا چاہتا ہے۔ اس کے جواب میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تو اس کی پرورش کی زیادہ مستحق ہے جب تک کہ تو نکاح نہ کرلے۔‘‘ (مشکوٰۃ المصابیح ص ۲۹۳ بحوالہ احمد و ابی دائود) تشریح: اللہ جل شانہٗ نے انسانوں میں توالد اور تناسل کا سلسلہ جاری رکھا ہے، بے ناتواں، ناسمجھ اور ضعیف البنیان پیدا ہوتے ہیں۔ ان کی پرورش اور پرداخت ماں باپ کے ذمہ کردی گئی ہے، وہ شرعاً بھی ان کی پرورش کے مکلف ہیں اور طبعی طور پر مامتا ہونے کی وجہ سے خود بھی پرورش کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، عموماً یہی ہوتا ہے کہ بچے ماں باپ کے سایہ میں پلتے بڑھتے اور پھلتے پھولتے ہیں۔ لیکن کبھی شریعت اسلامیہ کے مزاج کے خلاف میاں بیوی جدائی کا کام کر بیٹھتے ہیں۔ یعنی دونوں علیحدگی چاہنے لگتے ہیں جس کی وجہ سے طلاق ہوجاتی ہے یا شوہر اپنی ناسمجھی سے طلاق دے بیٹھتا ہے۔ یا حدود اللہ پر قائم نہ رہ سکنے کی وجہ سے